قیام پاکستان سے لے کر لمحہ موجود تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی مستحکم نہیں رہی۔آ غاز ہی میں پاکستان کا امریکن بلاک میں چلے جانا شاید صائب فیصلہ نہ تھا۔پاکستان کے داخلہ امور اور معاشی صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ پاکستان بجائے امریکن بلاک کے فطری طور پر روسی بلاک میں جاتا،کیونکہ تاریخی طور پر یہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سوشلسٹ بلاک میں امریکن بلاک کے مقابلے میں ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کم ہوتی ہے ۔پاکستان میں امریکہ کی جانب سے مداخلت زیادہ رہی ہے ۔بار بار کی مارشلائی حکومتیں اور اسٹبلشمنٹ کے عمل دخل کے پیچھے سی آئی ا ے کے خفیہ ہاتھ رہے ہیں اور امریکہ نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے ہمیشہ امریکی مفادات کو مدنظر رکھا ۔
امریکہ نے اپنی سیاسی اور معاشی منفعت کے حصول کے لیے پاکستان کی ریاست کو ہمیشہ استعمال کیا ہے ۔اگرچہ اس استعمال میں ایک خاص طرح کی مصنوعی خوشحالی بھی ملک میں آتی رہی لیکن اس خوشحالی نے ٹھوس بنیادوں پر ملک کی ترقی کو آ گے بڑھانے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا بلکہ ملک کی ترقی کا گراف نیچے کی جانب ہی رہا کیونکہ یہ مصنوعی خوشحالی تھی اور اس کے نتائج الٹ ہی ہونے تھے۔امریکی ڈالرز پاکستانی اشرافیہ کے اللے تللوں اور عیاشی کی نذر ہو گئے۔کیونکہ یہ ڈالرز جن حکومتوں کے ذریعے ملک میں آ رہے تھے وہ عوام کی نمائندہ حکومتیں نہ تھیں اور ان کی پالیسیاں عوام دوست بھی نہ تھیں۔جس سے ملک میں جمہوری کلچر کو نا قابل تلافی نقصان ہوا اور ملک کا مجموعی ماحول انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لپیٹ میں چلا گیا جس سے ہماری تہذیب اور ثقافت آ لودہ ہوئی اور ریاست کا خوشنما چہرہ داغدار ہوا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کے عقب میں عالمی سامراجی قوتوں کی جانب سے مداخلت ہے جس کی وجہ سے ریاست کی اپنی الگ سے شناخت ہی نہ بن سکی ،نہ ہم ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے۔ان حالات و واقعات میں پاکستان کی سنجیدہ قیادت نے گذشتہ دہائی سے خارجہ پالیسی کو ری تھنک کرنا شروع کیا اور امریکہ اور روس کی جانب اپنی توجہ مبذول کرنا شروع کی۔اوپر تلے چین اور روس کے سرکاری دورے کیے گئے اور کئی طرح کی یادداشتوں پر اتفاق رائے کیا گیا۔کیونکہ اب پاکستانی ریاست خود بھی سوچنے لگی ہے کہ وہ امریکی کی اس طرح ضرورت نہیں رہی جس طرح کے پہلے تھی اور امریکہ کے لیے بھی اب پاکستان اتنا اہم نہیں رہا تو پھر اب ڈالرز کیسے؟
ویسے بھی ایک مقام پر آ کر تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے ۔پاکستان کے اندرونی اور معاشی حالات اب اتنے مخدوش ہو چکے ہیں کہ اسے اپنی ریاستی پالیسیاں(متنوع قسم کی) بالعموم اور خارجہ پالیسی بالخصوص پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔معاصر صورت حال میں پاکستان کو طرح طرح کے گمبھیر حالات نے گھیر رکھا ہے اس لیے جہاں ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات کو بڑھانا چاہیے، شاید اسی جذبے کے پیش نظر ملک کی سنجیدہ قیادت چین اور روس یاترا پر چل نکلی ہے ۔اس یاترا کے ثمرات اس وقت بہتر طور پر سامنے آ سکتے ہیں جب مقتدرہ کے سارے ستون ایک پیج پر ہوں گے۔پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے ریاست پاکستان بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا بھی کر چکی ہے کئی طرح کے انتظامی اور حکومتی تجربے بھی ہو چکے ہیں مگر ابھی تک ریاست پاکستان کے چہرے پر نکھار نہیں آ سکا۔اب وہ لمحہ آ چکا ہے جب ہمیں عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ مسلم امہ اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔خارجہ اور داخلہ امور کو متوازن سمت دینا ہو گی ،مذہبی انتہا پسندی اور عقیدے کی غلط تشریح سے گریز کر کے امن کی راہیں اختیار کرنا ہوں گی ۔یہی ریاست پاکستان کی ترقی کا پہلا زینہ ثابت ہو گا
فیس بک کمینٹ