تحریک انصاف کے بانی اب تک آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو 3 خط لکھ چکے ہیں۔ جبکہ جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ ’انہیں کسی سیاسی لیڈر کے خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیاست دان سیاست دانوں سے بات کریں۔ مجھے اگر کوئی خط ملا تو میں اسے وزیر اعظم کو بھجو ا دوں گا‘۔ اصولی طور سے پاک فوج کے سربراہ کا مؤقف درست ہے۔ لیکن کیا اس طرح مکتوب نگاری کاسلسلہ بند ہوجائے گا؟
یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ خط ایک خاص سیاسی ایجنڈے کے تحت لکھے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف اس سے پہلے اپنے سیاسی بیانیے کے ذریعے دو باتوں کو عام کرچکی ہے۔ ایک یہ کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات جعلی، دھاندلی زدہ اور ناقابل قبول تھے۔ اپنے خطوں میں وہ شہباز شریف حکومت کو اقلیت کی مسلط کردہ حکومت یا ’اردلی حکومت‘ قرار دے کر اشتعال انگیزی سے سیاسی ماحول میں کوئی ارتعاش پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف یہ بات بھی عا م کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور عمران خان سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ تحریک انصاف تو یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ عمران خان کے علاوہ ملک میں کوئی دوسرا لیڈر موجود ہی نہیں ہے لیکن عام طور سے جو تاثر قوی کیا گیا ہے اس میں یہ واضح ہے کہ عمران خان کی ’مقبولیت سے انکار ‘ نہیں کیا جاسکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیانیہ کو عام فہم میں راسخ کرنے میں ان یوٹیوبرز نے اہم کردار ادا کیا ہے جو ملک سے باہر قیام پزیر ہیں ۔ کسی زمانے میں انہیں خاص طور سے نام نہاد ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کے لئے صف اول کے سپاہیو ں کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اب یہ سپاہی بے تیغ لڑنے کے لیے ملک سے مفرور ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں جھوٹ سچ پھیلانے کے نتیجے میں ان کے بنک اکاؤنٹ بھاری ہورہے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اس حد تک عام ہوچکی ہیں کہ پاکستان کا کوئی صحافی یا تجزیہ نگار بھی اپنے تبصرے میں یہ لائن لکھتے ہوئے زیادہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ’ملک کے سب سے مقبول لیڈر‘ یا تحریک انصاف کو سب سے بڑی پارٹی کہتے ہوئے کوئی پریشانی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس صورت حال سے کوئی سچ ثابت ہوتاہو یا نہ لیکن یہ واضح ہے کہ اگر کوئی بات تواتر سے کہی جائے اور دلیل کی بجائے محض یک طرفہ پروپیگنڈے پر زور دیا جائے (جسے جدید محاورے میں بیانیے کا نام دیا گیا ہے) تو ہر کوئی بھی اسے دہراتے ہوئے کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتا۔ پوچھئے بھئی اس کی دلیل کیا ہے ، کس نے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں کہ عمران خان ہی واحد مقبول لیڈر ہیں تو جواب یہی ہوگا کہ ’سب ہی یہ کہتے ہیں‘اور ان سب کے کان میں یہ آواز ڈالنے والا ذریعہ ایک ہی ہے۔
تحریک انصاف ان معنوں میں ضرور بڑی پارٹی ہے کہ اسے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ عمران خان یا پارٹی کی مقبولیت ان معنوں میں قابل قبول ہوسکتی ہے کہ عام انتخابات میں انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ۔ سوشل میڈیا مہم کے ذریعے تحریک انصاف کے میڈیا سیل نے کم از کم یہ ثابت کردیا کہ اگر مواصلاتی نظام پر دسترس حاصل کرلی جائے تو انتخابی نشان جیسے پرانے طریقہ کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی اور لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا جاسکتا ہے کہ کس حلقے میں اس پارٹی کا کون امید وار ہے جسے ووٹ دیے جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کاسارا مقدمہ میڈیا بیان بازی اور سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے کھڑا کیا ہے۔ پارٹی کے ناکام امید وار کسی نشست پر اپنا دعویٰ ثابت کرنے اور مخالف امیدوار کو ناکام کرانے کے لیے مسلمہ انتخابی ٹریبونلز کے ذریعے شواہد و ثبوت فراہم کرکے کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ ایسے بیشتر معاملات میں تحریک انصاف نے جان بوجھ کر تساہل یا عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ جبکہ فارم 45 اور فارم 47 کی بحث کو یوں گلی کوچے میں پھیلا یاگیا کہ یہ فقرہ عمران خان کی معصومیت و مظلومیت کی علامت بنا دیا گیا۔
اس حد تک تحریک انصاف ضرور حکومت کو مات دے چکی ہے۔ اسے اسی بات کا دکھ ہے کہ اس کے باوجود حکومت اپنی ’شکست‘ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے پی ٹی آئی کے مطالبوں کو مسلسل نظر انداز کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ یہ انکار تحریک انصاف اور عمران خان کے بیانات میں مزید بارود بھرنے کے کام آتا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کی دوتہائی یا تین چوتھائی نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے ۔نوٹ کرنا چاہئے کہ کامیابی کی شرح کا تعین بیان دینے والے کے موڈ اور وقت کی ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے، اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ورنہ پارٹی کسی قسم کی دستاویز میں ان انتخابی حلقوں کی نشاندہی کرچکی ہوتی جہاں سے وہ اپنے تئیں کامیاب ہوئی ہے لیکن اسے ناکام کرادیا گیا۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بہر حال تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اسی نوے سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اگر وہ انتخابی ٹریبونلز میں اپنی شکایات کی درست طریقے سے پیروی کرتی تو دوتہائی یا تین چوتھائی نہ سہی کم از کم سادہ اکثریت تو حاصل کرہی سکتی تھی لیکن پارٹی نے ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ اس کا مقصد سیاسی پروگرام کا نفاذ نہیں ہے، انتشار، بداعتمادی اور دباؤ کے ذریعے کسی بھی طرح اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ یہیں پارٹی ناکام ہورہی ہے۔ اگر وہ احتجاج کے ساتھ عام قانونی طریقہ بھی اختیا رکرتی تو اس کا مقدمہ مضبوط ہوسکتا تھا لیکن اس صورت میں ٹریبونلز میں ناکامی سے اس کایہ ’بیانیہ‘ غلط ثابت ہوجاتا کہ وہ تو انتخابات سویپ کرچکی تھی بس اسے عسکری قیادت کی ناراضی کی وجہ سے زور ذبردستی سے ہرایا گیاہے۔
شہباز شریف سمیت حکومت کے متعدد لیڈر یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر 2024 کا انتخابت دھاندلی زدہ تھا تو 2018 انتخابات میں ہونے والے گھپلوں کی بات بھی کرلی جائے لیکن تحریک انصاف اس طرف نہیں آتی۔ عام طور سے بھی اس دلیل کو یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے کہ سابقہ انتخابات کا موجودہ انتخابات پر ہونے والی شکایات سے کوئی مقابلہ نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ دونوں انتخابات ایک نام نہاد ہائیبرڈ نظام کی پیداوار ہیں۔ دونو ں انتخابات ملک کو ایک خاص ڈھب سے چلانے کے لیے پہلے سے فکس کیے گئے تھے۔ اصولی طور سے ان دونوں انتخابات میں ہارنے جیتنے والوں کو ایک دوسرے کو آئینہ دکھانے کی بجائے خود وہی آئینہ دیکھنا چاہئے ۔ لیکن ہر سیاسی گروہ ، دوسرے کو یہ کام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے خود احتسابی کے اس عمل کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہے۔
عمران خان تسلسل سے آرمی چیف کو خطوط لکھ رہے ہیں۔ یہ خط ان کے ہمدرد ججوں کے خطوط سے اس حد تک مختلف ہیں کہ ججوں کے خطوں میں ایک خاص آئینی نکتہ کو بنیاد بنا کر موجودہ سیاسی نظام کو توڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور ناکامی کے بعد خاموشی کے سوا یا دوسرے معنوں میں ’اسی تنخواہ پر کام ‘ کرنے سے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ البتہ عمران خان کے مکتوب کا سلسلہ دراز ہونے کا امکان ہے۔
سوال کیا جارہا ہے کہ عمران خان آرمی چیف کو خط کیوں لکھ رہے ہیں۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ میڈیا میں زندہ رہنے اور اپنی پروپیگنڈا مشینری کو متحرک رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ جب اصولوں کی بجائے مفادات پر سیاست کی جائے گی تو خبروں میں رہنا ضروری ہوجاتاہے۔ عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کی طاقت اب صرف اسی ایک ٹانگ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ پارٹی بامعنی سیاسی مکالمہ کرنے میں مکمل عدم دلچسپی کا اظہار کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقبولیت اور عوامی ہمدردی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کوئی ایسا مظاہرہ منظم کرنے میں ناکام رہی ہے جس میں قابل ذکر تعداد میں لوگ شریک ہوکر عمران خان کی سیاست کی تائد کرتے۔
ریاستی جبر کا عذر اسی وقت تراشا جاتاہے جب کوئی سیاسی پارٹی عوام کو اپنا ساتھ دینے اور ایک خاص سیاسی ایجنڈے کے لیے مظاہرہ کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے۔ ایسی ہی سیاسی پارٹی سیاسی احتجاج میں ہنگامہ آرائی اور تشدد کے ذریعے میڈیا کی توجہ اور اپنے لیے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ سیاسی جمود توڑا جاسکے۔ تحریک انصاف گزشتہ دو اڑھائی سال کے دوران اس مقصد میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس لیے اب خبروں میں رہنے کے لیے خط لکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو مشورہ ہے کہ وہ ان خطوط کا متن سنبھال کر رکھیں۔ بعد از وقت ان خطوط کو کتابی صورت میں شائع کرواکے وہ اپنی مقبولیت کا کچھ ثبوت بہر حال فراہم کرسکیں گے۔
تحریک انصاف کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ تو نظام کے ساتھ چل کر کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے اور نہ جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ملکی سیاست سے عسکری قیادت کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ کسی ضدی بچے کی طرح فوج کا وہ کاندھا مانگ رہی ہے جس پر سواری کرکے عمران خان 2018 میں وزیر اعظم بنے تھے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ