دنیا کے ہرملک میں سیاست سیاست دان کرتے ہیں اور سیاسی چالوں کے ذریعے اقتدارحاصل کرنے کے لیے عوام کوسیڑھی کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔پاکستان اور دیگر ممالک میں سیاستدانوں میں فرق صرف یہ ہے کہ دیگر ممالک میں سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور پرعمل کرتے ہیں اورعوام کی فلاح کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے سیاستدان اپنی عوام سے زیادہ بڑی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرکے عوام کوعوام دوست نعروں کے ذریعے سنہری خواب دکھا کر اقتدار حاصل کرتے ہیں۔اقتدارچھن جانے تک سرمایہ داروں ،صنعتکاروں ،وڈیروں ارو اشرافیہ کے مفادات کاتحفظ کرنے ،اپنی مراعات میں اضافہ کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔اوراقتدار چھن جانے کے بعد عوام کی مشکلات ومسائل کارونا روتے ہوئے عوام کے حقوق کے لیے ہلکان ہوجاتے ہیں۔ہمارے جمہوریت پسند سیاستدانوں میں اقتدار کی ہوس اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کو دوسری ٹرم میں جاتے برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ اورپھر ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کسی طالع آزما کوسہارا دینے کوتیارہوتے ہیں۔ان حالات کو پیدا کرنے میں بھی اقتدار سے باہررہنے والوں کا بڑا کردار ہوتا ہے جبکہ کچھ جرنیل بھی ایسے آئے جن کی اقتدار کی ہوس نے ادارہ کو عوام کی نظر میں ہردلعزیز نہ دینے دیا۔لیکن جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اوراب جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمہوری حکومتوں کوسہارا دیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قربانیاں دیں اورعسکری ادارے کوعوام میں مقبول کیا۔دہشت گردی کے خلاف فوج کا کردارہماری تاریخ کاسنہری باب ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنا کرداربھول جاتے ہیں اور دوسرے اداروں کاکردار یاد رکھتے ہیں۔کسی طالع آزما کاساتھ دینے والے سیاستدانوں کوجمہوریت کاعلمبردار گردانتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک شخص کے کردار کوپورے ادارے پر منبطق کرتے ہیں ۔ہ منطقی طورپر غلط اور سراسر زیادتی ہے۔
پیارے سیاستدانوں کے چلن ہی نرالے ہیں ۔جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں نے کبھی کسی آمر کوسیاسی وروحانی باپ تسلیم کیا۔ اوراس کے مشن کی تکمیل کوزندگی کاعشق قراردیا۔کبھی کسی سیاستدان نے عوامی رہنماءشہید ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا لکھنے والے پین کو اثاثہ قراردیا۔اورسزا سنانے والے جج کو قوم کا مسیحا مانا۔سیاستدانوں کے سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمات قائم کیے۔حکومتوں نے حزب اختلاف کو اورسیاسی اختلافات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں پر غدار کے لیبل لگائے،مقدمات چلائے ۔کسی سیاستدان کو سیکورٹی رسک قراردیاگیا۔مخالف سیاستدانوں کی حکومت ختم ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔حتی کہ ایک سیاسی جماعت تو ذوالفقارعلی بھٹو کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے والوں پر ڈنڈوں سے حملہ آور ہوئی ۔گویا کہ برسراقتدار سیاسی جماعت نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کوزیر کرنے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا لیکن اگر نہیں کیاگیا تو احتساب کسی بھی حکومت نے قومی خزانہ لوٹنے والے سیاستدا ن کو آج تک سزا نہیں دی اور نہ ہی لوٹی رقم واپس خزانہ میں جمع کرائی گئیں۔احتسابی عمل اختیارنہ کرنے پر تمام سیاسی جماعتیں باہم متحد رہیں۔آمر جنرل پرویز مشرف نے نیب بنائی اور اسے صرف اپنے اقتدارکی طوالت اورسیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا۔
ان دنوں پانامہ لیکس کے بعد عدالت عظمی پاکستان کی طرف سے احتساب کاعمل شروع ہوا۔سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کونااہل قراردیاگیا تومتاثرہ سیاسی جماعت نے اپنی توپوں کارخ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف کردیا۔چندماہ تک آزادعدلیہ آزاد عدلیہ کا گن گانے والوں نے عدلیہ پر کھلے عام تنقید شروع کردیں۔اب اس سیاسی جماعت کو یہ بھی یادآگیا عدلیہ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ جس سابق چیف جسٹس اورعدلیہ کی بحالی کے لیے انہوںنے تحریک چلائی۔اس چیف جسٹس نے تین بار پی سی او کے تحت حلف اٹھایاتھا بلکہ مذکورہ سابق چیف جسٹس نے تو تین سال تک آئین میں ترمیم کااختیاربھی ایک آمرکودے دیاتھا۔اور یہ ملک کے ساتھ کتنی بڑی ستم ظریفی تھی کہ جلوسوں کی قیادت کرنے والے شخص کو ملک کا دوبارہ چیف جسٹس بنادیاگیا ۔اس میں میڈیا کاکردار بھی شفاف نہ تھا۔استقبال اور جلوسوں کوبڑھا چڑھا کرپیش کیاگیا۔
سیاستدان اگرملک میں جمہوریت کادوردورہ چاہتے ہیں۔توانہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کسی آمر کاساتھ دینے والے سیاسی کارکن کوکوئی سیاسی جماعت اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرے گی۔سیاستدان اپنی داڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دینے کی بجائے پارلیمنٹ میں احتساب سیل قائم کرکے شفاف اوربے رحمانہ احتساب کریں گے۔لوٹی ہوئی رقم واپس خزانہ میں جمع کرائیں گے۔پارلیمنٹ کے ارکان مفادات ومراعات کی آخری حدوں کوچھورہے ہیں۔اب انہیں غریب عوام کو بنیادی حقوق اوربنیادی ضروریات دینے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔1200سے1300ارکان اسمبلی ہوش کے ناخن لیں ورنہ 18کروڑ عوام کا ریلا ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہے۔
فیس بک کمینٹ