ہم ہوا میں تیر چلائیں یا حقائق کے سینے چاک کریں،بات ایک ہی ہے۔تسلیم ورضا،مٹ جائے تو رعونت اور تفاخر عودکر آتے ہیں۔ دکھلاوہ سوچ ہوتی ہے،جو کیا جارہا ہوتا ہے وہ دکھلاوہ نہیں عمل ہوتا ہے،عمل اور فعل میں فرق ہوتا ہے،عمل صحیح نہ ہوتو نیت کا راز کھل جاتا ہے اور فعل درست نہ ہو شخصیت داغدار ہوجاتی ہے۔جو خوف خدا رکھتے ہیں ان کا دھیان عمل پر ہوتا ہے اور جنہیں دنیا کا ڈر ہوتا ہے وہ کج فعلی سے بچتے ہیں کہ اچھے برے اعمال کا حساب تو اللہ کریم نے لینا ہے اور فعل بد کی سزا دنیاوالے نقد چکا دیتے ہیں۔
یہ فلسفے کی نہیں نفسیات کی گتھی ہے جو ہمارے سیاسی بزرجمہروں کی سمجھ سے بالاتر ہے،اس لئے کامیابیوں کا دارومدار ہاتھ کی صفائی سے جُڑ گیا ہے۔عزیزم علی گیلانی کا بے سُرا تردد،اس پر بے لذت اعتراف، اسے کیا پکڑوائے گا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان تصاویر کا کونسی عدالت نے نوٹس لے لیا ہے،جن میں سینیٹ الیکشن بوتھس پرمامورعملہ اپوزیشن رہنماؤں کا کھڑے ہوکر،سینے پر ہاتھ رکھ کر سواگت کررہا ہے اور اقتدار والوں کے تو وزیر اعظم کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا (نوٹ : عملہ وزیر اعظم کی آمد پر بھی احتراماً سواگت کے لیے کھڑا ہوا تھا مگر وہ تصاویر وائرل نہ ہوئیں : مدیر گردوپیش ) پس عدل وانصاف کا بار اٹھانے والوں پر لازم ہے اس کی گرانباری کے احساس
سے آشنائی کا ثبوت بھی دے دیا کریں کہ جاننے والے یہ جان پائیں کہ ظلم اور عدل کے بیچ ایک دیوار کھڑی ہے،ابھی اندھیرا اتنا نہیں پھیلا کہ روشنی کی ایک کرن کا چھن کر منصہء شہود پر آنا مطلق مفقود ٹھہرا ہو۔ سینٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی ہوں یا صادق سنجرانی،عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہاں عام آدمی ان مقابلوں اور مسابقتوں کے دوران جن اذیتوں سے گزرتے ہیں ان کا اندازہ کسی کو نہیں ہوتا،نہ حکومت کو اور نہ اپوزیشن کو۔یہ دور دیدہ دلیری کا ہے کوئی اس زعم میں ضمیر کی پرواہ نہیں کرتا اور کسی کو اپنے منصب ومرتبے کی پاسداری نہیں رہتی۔
وزیر اعظم عمران خان کو ملمع سازی سے فرصت نہیں اور اس دوران وہ مذہب کو چورن سمجھ کر بیچنے پر آتے ہیں تو اپنے ہی تضادات کی کہانی ایسے بیان کرتے ہیں کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔وہ خود چونکہ رعونت کے کیف ومستی میں سر تا پا بھیگے ہوئے ہوتے ہیں،اس لئے یہ ادراک ہی نہیں کر پاتے کہ بامعنی اور لایعنی گفتگو میں کیا فرق ہوتا ہے،وہ جس سرور میں ہوتے ہیں وہ انہیں یہ چرکہ بھی نہیں لگاتا کہ پل بھر میں وہ اپنے ہی دلائل و براہین کے تارو پودبکھیر کے رکھ دیتے ہیں۔وہ امانت و دیانت کے مفاہیم و معانی کو الٹ پھیر کے رکھ دیتے ہیں،وہ ہر ایک کے کردار پر انگلی اٹھاتے
ہیں ماسوا کردار کے ان غازیوں کے جو ان کی اپنی صفوں میں شامل ہیں مگر اچھی سیرت و کردار کے سوا سب کچھ ان کی ذات کا تعارف ہے۔
ان سطروں کی اشاعت تک سید یوسف رضا گیلانی یا صادق سنجرانی میں میں سے کوئی ایک چیئرمین سینٹ منتخب ہوچکا ہوگا۔گمان یہ ہے کہ سابق چیئر مین ہی اس عہدے کے حقدار ٹھہریں گے کہ پانچ ووٹ کا فرق زیادہ سے زیادہ دو سو پچاس کروڑ سے مٹایا جاسکتا ہے۔ضمیر کی یہ قیمت کوئی بڑی قیمت نہیں ہے کہ اتنی بڑی شے کو اتنے داموں بیچ دینا توووٹ
کی عزت کے صدقہ و خیرات سے بھی کم تر ہے۔اس مد میں زرداری صاحب کی زنبیل میں اتنا تو پڑا ہی ہوتا ہے مگر مقتدرہ کے پاس بھی ایسے ہاتھی موجود ہیں جن کے کھانے کے دانت اور،اور دکھانے کے اور ہیں۔اس کے ساتھ ہی سابق چیئرمین کی ذات کے کرشمے ان کے گزشتہ چناؤ کے موقع پر بھی کام آئے تھے اور اب بھی ان کے وہ محسن ن لیگ کے ممبر ہونے کے باجود خم ٹھونک کر ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔محبت کی قربان گاہ پر کوئی کوئی عام سمے چڑھا وا چڑھاتا ہے سب کویہ توفیق نہیں ہوتی۔
سنجرانی صاحب کا ایک طرہء امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کا شمار ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن سے اسٹیبلشمنٹ کو کوئی شکوہ نہیں ہوتا،اس طرح بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم رہنما ہونے کی حیثیت سے بھی وہ استفادے کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے۔جہاں تک سائیں یوسف رضا گیلانی کا تعلق ہے گزرے وقتوں میں زرداری صاحب کے ایک بھاری قرض کے حوالے سے تا دیر ان کے زیر عتاب رہے تھے۔ان دنوں اس قرض کے چرچے عام ہوتے تھے جو آخر کو گیلانی صاحب کو اتارنا ہی پڑا،آج بھی کسی بڑے قرض کو سہارنے کی حامی سابق وزیر اعظم نے بھر لی تو چیئرمین شپ پکے پھل
کی طرح ان کی جھولی میں آن گرے گی۔ورنہ صادق سنجرانی تو ہیں ہی،جن کے چیئرمین ہونے کا اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہ بھی ہوا تو نقصان بھی کوئی نہیں ہوگا کہ اس خوبصورت و خوب سیرت آدمی کا کمال یہ ہے کہ ایک مسکراہٹ سے گھائل کرکے رکھ دیتا ہے اور یہ وصف ہر کسی میں نہیں ہوتا۔
فیس بک کمینٹ