ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ حکومت یا تحریک انصاف باہمی مذاکرات سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ دونوں طرف سے اس موضوع پر یکساں طور سے درشت بیان بازی ہورہی ہے۔ بظاہر کوئی بھی بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہے لیکن حکومت اور تحریک انصاف دونوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ’مصالحت اور معاملہ فہمی‘ سے آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ ارادہ بجائے خود بے بنیاد اور ناقابل عمل ہے کیوں کہ مصالحت کے لیے جس ہوم ورک یا ایک د وسرے کے لیے احترام کی ضرورت ہوتی ہے وہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ تحریک انصاف نے نومبر کے آخر میں اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا جو عزم کیا تھا، اس میں ناکامی کے بعد پارٹی نے محسوس کیا کہ اس کے پاس مزید عملی جد و جہد کی صلاحیت اور قوت موجود نہیں ہے۔ عمران خان کے قید ہونے کی وجہ سے پارٹی میں گروہی انتشار بہت واضح ہے۔ متعدد عناصر اپنے اپنی پوزیشن مستحکم کرکے عمران خان کے ’مائنس‘ ہونے کی صورت میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ البتہ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی ایک گروہ کو اس میں سبقت حاصل نہیں ہے ۔ اگر مستقبل قریب میں کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے کہ عمران خان پارٹی معاملات سے مکمل طور سے لاتعلق ہوجاتے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کے سوال پر کھلی لڑائی دیکھنے میں آئے گی۔ اس صورت میں پارٹی کے دھڑے بننے اور مختلف ناموں سے عمران خان کی ’اصلی پارٹی‘ کےدعوے بھی سننے میں آسکتے ہیں۔
تحریک انصاف میں قیادت کی اس باہمی کشمکش کے علاوہ یہ بھی نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ حکومتی دباؤ، لیڈروں کی حراست، کسی مقبول عوامی تحریک کی عدم موجودگی اور سیاسی پیش رفت کے حوالےسے پائی جانے والی بے یقینی کے علاوہ تحریک انصاف کے پاس مالی وسائل کی بھی کمی ہے۔ پارٹی اب بہت بڑے جلسے منعقد کرنے یا مظاہرے منظم کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ گزشتہ سال کے دوران منظم کیے جانے والے بیشتر مظاہرے یا مارچ خیبر پختون خوا حکومت کی مالی، انتظامی اور افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے اعانت و امداد کی وجہ سے ممکن ہوسکے تھے۔ اسی لیے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کا فوکس بھی خیبر پختون خوا ہی رہا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں تحریک انصاف اپنی مقبولیت کی دعوے دار بھی ہے لیکن عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی رہائی کے بعد سیاسی طور سے خود کو نمایاں کرنے کے لیے لاہور کو مرکز بنانے کی بجائے پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پناہ لی اور وہاں سے احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی اس کوشش اور پارٹی کو عمران خان کا متبادل فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اسی لیے عمران خان کی رہائی صرف ان کی ناجائز حراست کے خلاف احتجاج کا معاملہ نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کا وجود قائم رکھنے کے لیے عمران خان کا جیل سے باہر ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ پارٹی کو منظم کرسکیں ۔ عوام میں ایک بار پھر یہ امید جگا سکیں کہ وہ ان کے درمیان ہیں ، سیاسی میدان سجایا جائے گا اور اس طرح پارٹی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کا اہم کام بھی کرسکیں۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف 26 نومبر کے احتجاج میں ناکامی کے بعد اس نتیجہ تک پہنچی کہ اسے عمران خان کی رہائی کے لیے میدان ہموار کرنے اور پارٹی کی نئی حکمت عملی کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔ اسی مقصد سے مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ یوں پارٹی دو مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایک تو عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پر اخلاقی دباؤ میں اضافہ ہؤا ہے ، دوسرے کوئی احتجاج منظم کیے بغیر اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہوئے بنا تحریک انصاف مسلسل خبروں میں رہنے اور عوامی رابطہ میں کامیاب ہے۔ البتہ مذاکرات کے ذریعے ملک میں سیاسی بے چینی ختم کرنے کا جو ارادہ ظاہر کیا گیا تھا، اس میں کسی قسم کی کامیابی دکھائی نہیں دیتی۔ چونکہ تحریک انصاف کی حد تک یہ بنیادی مقصد نہیں تھا ، اس لیے اس پہلو کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دی گئی۔
اس کے برعکس حکومت بھی تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی کیوں کہ ایک تو اسے تحریک انصاف کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ دوسرے سیاسی لیڈروں کی رہائی یا سانحہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے بارے میں عدالتی تحقیقات کا مطالبہ ماننا حکومتی ایجنڈے کی نفی کے مترادف ہے۔ حکومت کی ان مذاکرات میں شامل ہونے کی بھی دو وجوہات ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ میڈیا اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے سیاسی مصالحت کے لیے مکالمہ کے بارے میں دباؤ سے نکلنا چاہتی ہے تاکہ یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کی جائے کہ حکومت سیاسی بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتی ہے لیکن مخالف فریق اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسی لیے یہ مذاکرات کسی وسیع المقاصد سیاسی ایجنڈا کے لیے نہیں ہورہے۔ بلکہ ان کی بنیاد ایک پارٹی کی طرف سے حکومت سے مطالبوں کی تکمیل تک محدود ہے۔ سیاسی معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے مذاکرات محض ایک لیڈر کی رہائی اور بعض واقعات کی تحقیقات تک محدود نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایسے مکالمہ میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے اور کوئی ایسا پلیٹ فارم تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس پر اتفاق رائے کے بعد پارلیمنٹ میں کام معمول کے مطابق ہوسکے اور اختلاف رائے کے باوجود تمام سیاسی عناصر چند بنیادی نکات پر اتفاق کرکے ملکی معاملات میں سہولت پیدا کرنے پر متفق ہوں۔ مثلاً معاشی پالیسی کے خد و خال پر اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ یا سفارتی معاملات میں یک جہتی کا اظاہر سامنے آسکتا ہے۔ اسی طرح عسکری اداروں اورعدلیہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات پر کوئی اصولی لائحہ عمل زیر غور آسکتا ہے۔
مذاکرات کا آغاز ہونے سے پہلے تحریک انصاف 26 ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتی رہی ہے۔ اسی طرح وہ گزشتہ سال فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کو جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سیاسی بیانیہ کے مطابق شہباز شریف کی حکومت ناجائز اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے مسلط کردہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ صرف پارٹی کا وفد اسی حکومت کے نمائیندوں سے بات چیت کررہا ہے بلکہ ان سے اپنے ’مطالبات‘ منوانے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ گویا تحریک انصاف نے بھی کسی اصولی معاملہ پر مذاکرات میں شرکت کا ارادہ ظاہر کرنے کی بجائے ایسے دو مطالبات پر اصرار کرنا ضروری سمجھا جن کا نتیجہ اگر ان کی حمایت میں بھی آجائے تو بھی ملک کی سیاسی صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ یعنی اگر حکومت عمران خان کو کسی نہ کسی طریقے سے رہا کردے یا سانحہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کسی نہ کسی قسم کا کوئی عدالتی کمیشن قائم کرنے پر راضی ہوجائے تو اس سے کیسے ملک میں ’جبر‘ کا ماحول ختم ہوجائے گا اور تھریک انصاف کا ’حقیقی آزادی‘ کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا؟
دوسری طرف دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے بھی یہ اصرار کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ اگر تحریک انصاف مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور ملک کو درپیش سیاسی مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو وہ انتخابی دھاندلی کا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے بھی موجودہ حکومتی انتظام کو تسلیم کرنے کا واضح اعتراف کرے۔ تحریک انصاف عملی طور سے موجودہ نظام کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہے لیکن وہ اس سے فرا ر کا آپشن کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ سرادر ایاز صادق کی طرف سے مذاکرات کی سہولت کاری کے وقت اس صورت حال کو تبدیل کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی مذاکرات کے دونوں ادوار میں حکومتی وفد نے ایسی کوئی تجویز پیش کی۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی حکومت کو نہ مانتے ہوئے بھی اس سے مطالبات کرنے کے لیے تو پہنچ گئی لیکن اس نے یہ عذر پیش نہیں کیا کہ ملک میں عدلیہ کے خلاف منظور کی جانے والی 26 ویں ترمیم کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ البتہ فریقین دو مرتبہ مل کر اس بے بنیاد نکتے پر بحث کرتے رہے کہ مطالبات تحریری ہونے چاہئیں یا ان کا زبانی اظہار ہی کافی ہے۔
حکومت مطالبات تحریری طور سے پیش کرنے پر اصرار کرتی رہی۔ تحریک انصاف نے یہ مطالبہ سن کر تحریری مطالبے پیش کرنے کے لیے عمران خان سے ملاقات پر اصرار تو کیا لیکن یہ سوال نہیں کیا کہ مطالبوں میں کون سا ابہام ہے کہ انہیں تحریری ’درخواست‘ کی صورت پیش کرنا ضروری ہے؟ کیا یہ کسی سرکاری دفتر سے کوئی سہولت حاصل کرنے کا معاملہ ہے یا ملک کی اہم سیاسی پارٹیوں کے درمیان رنجشیں اور دوریاں دور کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز ہے۔ اصولی طور سے مطالبات تحریری طور سے پیش کرنے کا تقاضہ اور اس پر اتفاق ، دونوں ہی غلط ہیں۔ اس طرح حکومت اور تحریک انصاف نے یکساں طور سے واضح کیا کہ ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ یعنی دونو ں ہی صرف وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی اگلے سیاسی تصادم کی تیاری کی جاسکے۔
اس پس منظرمیں آج عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے وفد کا یہ اعلان حیرت انگیز نہیں ہے کہ اگر حکومت نے سانحہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن قائم کرنے پر اتفاق نہ کیا تو 31 جنوری کے بعد مذاکرات نہیں ہوں گے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان دعوؤں کے باوجود یہ حتمی تاریخ بھی گزر جائے گی اور حکومت و تحریک انصاف اسی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے مذاکرات سے معاملات طے کرنے کا اعلان کرتے رہیں گے۔ کیوں کہ دونوں میں سے کوئی بھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچنا چاہتا۔ حکومت دیگر باتوں کے علاوہ فیصلوں میں تحریک انصاف کو حصہ دار بنانے پر آمادہ نہیں ہے اور تحریک انصاف یہ گمان رکھتی ہے کہ اس کے سوا کسی دوسری سیاسی قوت کو عوام کی نمائیندگی کا حق حاصل نہیں ہے۔
یہ مذاکرات یا انہیں کامیاب کرانے کی خواہش کا اظہار درحقیقت ایک ڈھونگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کے ذریعے کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے سب سے اہم پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے جہاں سب پارٹیوں کو نمائیندگی حاصل ہے ۔ لیکن وہاں پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر اجلاس کا بائیکاٹ کردیاجاتا ہے۔ دوسرے سیاسی مذاکرات کے لیے واضح قومی ایجنڈا پیش نظر ہونا چاہئے جو پوری قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اس مکالمہ میں پاکستانی عوام ، تجزیہ نگار اور سیاسی دانشور بھی اپنی رائے شامل کرسکیں۔
سیاسی مذاکرات کو محض حکومتی پارٹیوں بمقابلہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کی شکل دینے کی بجائے تمام پارلیمانی پارٹیوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ معیشت، دہشت گردی، علاقائی خود مختاری، شدت پسندی اور مذہبی عناصر کی انتہاپسندی جیسے اہم امور کو ایجنڈے میں شامل کرکے سنجیدگی سے قومی مکالمہ کا آغاز کیاجائے۔ سب سیاسی عناصر اس عہد کے ساتھ ان مذاکرات میں شامل ہوں کہ سیاسی اختلاف سے قطع نظر خالصتاً قومی نقطہ نظر سے تبادلہ خیال کرکے کچھ اصول وضع کیے جائیں گے۔ جو مذاکرات ایک لیڈر سے ملاقات اور اجازت کے محتاج رہیں گے ، وہ نہ تو قومی مصالحت کا ایجنڈا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ملک کو درپیش چیلنجز کا کوئی حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ