کل میں نے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی اور معروف اینکر و صحافی ڈاکٹر شاھد مسعود کو ھتکڑی لگے دیکھا اور آج ایک استاد کو ھسپتال کے بیڈ پرھتکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے مردہ حالت میں دیکھا ….. کاش میری زندگی میں وہ دن بھی آے کہ میں کسی ” کلغی ” والے کو ھتکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑا ھوا دیکھوں نہ کہ کسی استاد یا صحافی کو ….
نیب کی حراست میں دل کا دورہ پڑنے سے سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے انچارج پروفیسر میاں جاوید وفات پا گئے ۔
ان کے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ شاید کل ان کا جنازہ پڑھیں گے اور سبق سیکھیں گے کہ کسی نے زندگی میں استاد بننے کی ذلت نہیں اٹھانی بلکہ راؤ انوار یا شرجیل میمن بننے کی "عزت” کمانی ہے کیونکہ کوئی مائی کا لال قتل اور اربوں کی کرپشن کے باوجود انہیں ہتھکڑی لگانے کی جرات نہیں کر سکتا ۔ ان کے لئے ملک کی اعلی ترین عدالت کے پروٹوکول والے خفیہ دروازے بھی کھل جاتے ہیں لیکن اعلی ترین تعلیم یافتہ سکالرز اور ہزاروں طلباء کے استاد کو محض الزام پر ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا ھے اور دل کا دورہ پڑنے اور ھسپتال میں انتھای نگھداشت وارڈ کے بیڈ پر بھی ھتکڑی نھیں کھولی جاتی اور وہ اسی حالت میں وفات پا جاتے ھیں ۔ اس استاد کی بدقسمتی اور نیب اھلکاروں کی سنگدلی اور بے حسی ملاحظہ فرمایں مرنے کے بعد بھی ھتکڑی اور زنجیریں کھولنے کی زحمت گواراہ نھیں کی گیی. میاں جاوید تو زندگی کی بازی ہار گئے بعد میں الزام ثابت ہو یا نہ ھو اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ۔ معاشرے کے ان کمی کمینوں کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ کس شودر طبقے سے ہیں اور ان کی اوقات کیا ھے . اسے ھم اپنی قومی بے حسی کی انتہا اور زوال کی نشانی بھی سمجھ سکتے ھیں اور معاشرے کا قحط ا لرجال بھی .
فیس بک کمینٹ