اسلام آباد کے سرد موسم کی بارش کا ایک الگ رومانس ہوتا ہے۔ آپ کشادہ سڑکوں پر نئے ماڈل کی کار چلارہے ہوں، جیب میں چار پیسے ہوں، سب ٹھیک ٹھاک ہو،تو یہ سب بہت بھلا لگتا ہے۔ شاید میرے کیس میں ایسا نہیں ہے۔ ایسی ہی بارش میں سڑک پر بدترین ٹریفک جام میں صبح کے ٹائم نوکری جاتے کار میں بیٹھے،اور کچھ نہیں ملا تو لوگوں کے چہرے پڑھنے لگا۔ جو دیکھا وہ سب رومانس سے کوسوں دور تھا، افراتفری، وحشت، انجانا خوف، جلد بازی، نفسا نفسی، ہر کسی کو بس اپنی پڑی تھی۔ میں روزانہ یہ سب دیکھتا ہوں، اور روز ڈر جاتا ہوں، مجھے اس ہجوم سے خوف آتا ہے۔ایک ایسا ہجوم جس کی اصل حقیقت کو کریدوں تو شاید آپ بھی ڈرنے لگیں، اپنی اولاد کو اس ملک سے باہر نکالنے کی کوشش میں لگ جائیں، بس کہیں بھی چلے جائیں یہاں نہ رہیں۔ یہ سب بتانے کے لیے ہمیں Fragile States Index کا مطالعہ کرنا ہوگا،جس کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہوتا ہے جو ناکامی کی طرف سفر کررہے ہیں۔ ان میں سنٹرل افریکن ریپبلک، جنوبی سوڈان اور صومالیہ کا نمبر سب سے اوپر ہے۔ ان تینوں ممالک کی ناکامی کی وجوہات پر تحقیق کی تو بہت سی چیزوں میں مشابہت ملنے لگی اور اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اس ملک میں بہت سی چیزوں میں خرابی کا باعث امریکہ نہیں ہے۔ سنٹرل افریکن ریبپلک کی ناکامی کی وجہ بے پناہ بڑھتی آبادی، تعلیم کی کمی اور اقتدار کی چھینا چھپٹی ہے۔ جنوبی سوڈان میں آمریت جمہوریت کا کھیل اور مذہبی منافرت عروج پر ہے اور صومالیہ میں قحط، طرح طرح کی بیماریاں،بے پناہ آبادی اور موروثیت کے اقتدار کی لڑائی جاری ہے،اس سب نے مل کر ان تینوں ملکوں کو خاتمے کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ ہم پہلے دس ممالک میں اس فہرست کا حصہ ہیں۔ اس کی وجہ آپ عام انسان سے پوچھیں تو وہ سینہ چھوڑ ا کر کے کہنے لگے گا ،کہ یہ سب امریکہ کروا رہا ہے۔ زوال شدہ قوموں کا المیہ یہی ہے کہ وہ اپنی ناکامیاں، دوسروں پر ڈال دیتی ہیں۔ آپ کو سوالوں کے جواب چاہیے تو میرے ساتھ اسی ہجوم کے چہرے پڑھنے لگ جائیں ،ہجوم بھی ایسا کہ جس میں کرنٹ یا سانپ چھوڑ دیے گئے ہوں، بے ربط، بے ہنگم ، بے منزل ،نفسا نفسی کا شکار۔ وہ ہجوم کہ جس کی کرپشن کا آغاز فٹ پاتھ پر غریب کی ناجائز تجاوزات یا ریڑھی سے ہوتا ہے اور تاحد ِ نگاہ لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہوجاتا ہے۔ ہر طرف خونخوار مگر مچھوںکے تالاب کا منظر ہے، جس کا جتنا بڑا منہ ،اتنا ہی کرپشن کا ماس کھایا جارہا ہے۔ جہاں مریض کسٹمر ہے ، وہیں طالب علم ٹیوشن سنٹر کی بھاری فیس کا ذریعہ ۔ جس جگہ افسر شاہی ہے،اس کے ناک کے نیچے ، اوپر سے نیچے تک ،ہر فائل نوٹوں کے انتظار میں ہے۔ دفتر کے چپڑاسی سے لے کر بڑے سے بڑا افسر،سب اسی ہجوم کا حصہ ہے۔ گو پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں، مگر یہ بالعموم ہورہا ہے،اور سچ پوچھیں تو شاید اتنا عام ہوچکا ہے کہ سسٹم کا حصہ بننے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ غلط ہے، حرام ہے۔ جھوٹ عام ہے، بے حیائی عام ہے۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے، غیرت کے نام پر قتلِ عام ہورہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے ان گنت رپورٹ کیسز موجود ہیں، اور جو رپورٹ نہیں ہوتے ،ان کا کوئی گنتی شمار نہیں۔ اسی ہجوم میں انصاف کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ استثنی کے نام ہرامیر بچ جاتا ہے،اور غریب چاہے اس کا جرم کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، سخت سے سخت سزا کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے، تاکہ نظام میں ظاہری طور پر انصاف کی مہر ثبت رہے۔ آبادی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی اور سب سمجھانے کی،یا روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فورا امریکہ،یہودیت کے فروغ کو امت سے ملا دیا جاتا ہے،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آج دنیا بھر میں ایک فیصد سے بھی کم یہودی ،اڑتالیس فیصد مسلمانوں کے مقابلے میں دنیا کی ستر فیصد اکانومی پر حاوی سب کچھ کنٹرول کررہے ہیں۔ تعلیم پر آجائیں ،تو ہم دنیا کے ٹاپ پچیس ناخواندہ ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں،حتی کہ اس دوڑ میں ہم اپنے ہی جدا حصہ بنگلہ دیش سے کہیں پیچھے ہیں۔ مذہب،لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت، ذات براداری ، حتی کہ معاشرتی حیثیت کی طرح طرح کی تعریفیں لگائیں،تو ہم اسی ہجوم میں اس قدر ضربیں لگا چکے ہیں کہ انگھوٹے کے نشان کی طرح ،ہر شخص ہی ایک الگ شناخت لیے ہے ۔رسول پاک ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جس قوم میں تین چیزیں عام ہوجائیں ،اسے تباہی کے لیے کسی بیرونی طاقت کے حملے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پہلا ظلم، دوسرا جھوٹ اور تیسرا دھوکہ یا خیانت۔ آپ نیوز چینل لگالیں، صبح کا اخبار پڑھ لیں آپ کو ظلم کی تعریف مل جائے گی۔ جھوٹ کی اصلیت ہر انسان خود جانتا ہے اور یہ تو شاید اس ہجوم میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب احساس ہی نہیں ہوتا اور تیسرا دھوکہ خیانت۔ اسی نفسانفسی میں آپ ملاوٹ، ناپ تول پر تحقیق کرلیں، امانت اور خیانت میں فرق بھی عیاں ہوجائے گا۔اس سب کے بعد بھی کبھی ہم قصور وار افغانستان کی طالبانائیزیشن ، ملک میں پھیلی دہشت گردی اور نجانے کسے کسے دینے لگ جاتے ہیں۔ ہماری اس سب اخلاقی گراوٹ نے ہمیں بے پناہ نقصان پہنچایا اور اس کی وسعتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ آج ہم بنگلا دیش سے بہت سے شعبوں میں پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیش آج آبادی پر قابو پاچکا ہے ،اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر یونس فارمولہ تھی کہ جس میں Women Empowerment پر کام کیا گیا۔ گھر میں دو کمانے والے پیدا کیے گئے اور یوں جہاں آبادی کنٹرول ہوگئی وھی ہاں ہر گھر کی اکانومی بھی بہتر ہوگئی۔ اسی طرح بنگال بھارت کے ساتھ اسلحے کی ریس سے بھی باہر ہوگیا اور اپنے آپ کو خارجی مسائل سے نکال کر تمام توجہ داخلی مسائل پر کردی۔ یوں وہ امریکہ کی نیوورلڈ آرڈر گیم کا حصہ بننے سے بچ گئے اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے عذاب سے بچ گئے۔ جبکہ ہم نے غربت، تعلیم، آبادی اور سب سے بڑھ کر کرپشن جیسے اژدھے اگنور کرکے افغانستان کی خانہ جنگی سے کشمیر کے مسئلے کا حل ڈھونڈنا شروع کردیا۔ پہلے ہم نے روس کا شیرازہ بکھیرنے میں ڈالر اور اقتدار کی دوامی روش میں امریکہ کا بغیر سوچے سمجھے ساتھ دیا۔ اسی آڑ میں پہلے سے بڑھتی آبادی میں کئی لاکھ مہاجرین ، کلانشکوف کلچر اور پہلے سے ڈوبتی اکانومی کو اور تباہ کردیا گیا۔ محققین یہی کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت ایک ایسے ملک کی جانب سے کسی حماقت سے کم نہ تھی جو پانی، بے روزگاری ، کرپشن اور بے پناہ آبادی جیسے مسائل سے لڑرہا تھا۔ جگہ جگہ جن کے لیے چندے کے ڈبے رکھے گئے، کشمیر کاز کو بچانے کی کوشش کی گئی ، بعد میں وہی سب اسامہ بن لادن اور امریکہ کی جنگ میں الٹا دیا گیا۔ آج بھی راقم القلم اس بات پر قائم ہے کہ 9/11 کا اصل حملہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر نہیں پاکستان پر ہوا تھا، جہاں 80ءکی دہائی کے وہی مہاجر گوریلا جنگ میں بدل گئے، وہیں ہماری ہر گلی میں بارود پھٹنے لگا۔ پاکستان کا تشخص بری طرح تباہ ہوگیا، ہرا پاسپورٹ پوری دنیا میں شک کی فہرست میں افغانیوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور یہاں سانس لینا بھی مشکل ہوگیا۔ ہم شہ رگ بچانے کے چکروں میں پورا جسم چھلنی کر بیٹھے اور جو داخلی طور پر ہماری بنیادی ضروریات تھیں وہ ناپید ہوگئیں۔ تعلیم ، روزگار، صحت میں ابتری اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گئی۔ لوگ پانی،بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں کو ترسنے لگے۔ ناقص پالیسیوں کے لا محدود سلسلوں نے خطے کا امریکہ بننے کے چکروںمیں ہمیں صومالیہ، جنوبی سوڈان اور سنٹرل ریپبلک افریکہ جیسے ممالک کے ساتھ لاکھڑا کیا ۔ مجھے آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے لوگ ملک سے بھاگنے کے چکروں میں لانچوں، کنٹینرز میں مر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز جیسے پیشے بھی دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ انگریزی زبان کے امتحان کے بنیادی سنٹرز جیسے کہOET بنگلہ دیش میں تو قائم ہیں، پاکستان نہیں آتے۔ یہاں اگر وہ عوام جو متوسط طبقے میں شمار ہوتی ہے، تھوڑی سے لگژری لینا چاہے تو کئی گنا ٹیکس کی مد میں فون، گاڑیاں حاصل کر پاتی ہے ،جبکہ باہر ان چیزوں کا حصول اس سے آٹھ گنا کم پیسوں میں ہوجاتا ہے۔ تھرڈ ورلڈ کے باسیوں کے ساتھ اس ملک میں لائسنس رکھنے والے گاڑیوں، فوڈ چینز اور دیگر مصنوعات بنانے والی انٹرنیشنل کمپنیاں بھی شدید امتیازی سلوک برتتی دکھائی دیتی ہیں، جبکہ بھارت میں ان کو شدید جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ بیرونی قرضے ، نئے پاکستان میں بھی پرانی روش پر ہیں۔ زبانیں، اخلاق، پالیسیاں اور تعلیم، روزگار ، صحت کی روش بھی ویسی ہی ہے۔ سردیوں کی پہلی بارش کے اس رومانس میں دنیا کے خوبصورت ترین دارلخلافہ میں چہروں پر لکھی کہانیاں تو بس یہی ہیں۔ ایک ایسا خطہ جو جنت بنایا جاسکتا ہے، وہاں ایک ایسابے ہنگم ہجوم موجود ہو جو ابدی قید میں ہو،سانس تھم جائے، گھٹن ہو،سب اعصاب جکڑے جانے لگیں، وہاں چہرے بارشوں کے رومانس سے بدلانہیں کرتے،شاید اور وحشت زدہ ہوجاتے ہیں۔ میرا چہرا بھی اسی بارش بھی کتنی آنکھیں، گھور رہی تھیں اور ٹریفک بری طرح جام تھی۔
فیس بک کمینٹ