بدنام زمانہ خودساختہ ممبی حملہ ہو یا ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ یا پھر پٹھانکوٹ حملہ ایک بات تو طے ہے کہ ہندوستانی حکومتیں ان ڈراموں سے اور کچھ حاصل کرسکیں یا نہ کرسکیں لیکن اتنا ضرورہے کہ وہ اپنے متشدد انتہاپسند معاشرے میں پاکستان کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والا زہریلا غبار بھر کر انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہیں . 2014 میں جب ہندوستانی انتخابی طبل بجا تو نریندر مودی بھارتی سیاست میں ایک آزمودہ کھلاڑی کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ چانکیہ طرز سیاست کو اگر کسی نے عمل میں ڈھالا تو وہ نریندر مودی ہے ، کمال عیاری سے راج ناتھ سنگھ اور اسی قبیل کے دیگر ہمنواؤں کو شیشے میں اتارا اور سرکردہ قیادت کو منظرنامے سے ہٹا دیا۔ مرکز میں قسمت آزمائی سے قبل مودی کی شبیہ دو حوالوں سے جانی جاتی تھی۔ پہلی گجرات کا ایک کامیاب وزیراعلیٰ جس نے ایک عشرے میں ریاست کی معاشی حالت بدلی اور دوسری 2002 کے فسادات میں پس پردہ کردار، ہزاروں مسلمان جس کی بھینٹ چڑھے۔
انتخابی کارزار میں بظاہر نعرہ ’’سب کا وِکاس‘‘ (ترقی سب کےلیے) لگایا۔ مراد سبھی طبقوں کی ترقی لی گئی مگر اپنی انتخابی ریلیوں میں پاکستان سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی بات تواتر سے کہی جاتی رہی۔ اس ضمن میں کانگریسی حکومت کی پاکستان پالیسی کو ہندوستانی ریاست کی کمزوری سے تعبیر کیا۔ عوامی جذبات کو انتقامی شعلوں میں بھڑکائے رکھا، دائیں بازو کی شدت پسند قوتیں شیوسینا، بجرنگ دل، ویشوا ہندو پریشد و دیگر کو بی جے پی کے پرچم تلے اکٹھا کیا اور تقریباً دو تہائی اکثریت سے کامیابی سمیٹی۔
انتخابی کامیابی پر بھارتی عوام پر امید تھے کہ مودی حکومت، عام آدمی کی مشکلات کا ازالہ کرے گی۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ایسی عفریتوں پر قابو پانے کی سبیل تلاش کرے گی۔ مگر 70 فیصد ہندوستانی آبادی جو خط غربت سے نیچے زندگی کے دن گن رہی ہے اور دو وقت کے نان نفقہ کو ترستی ہے اس کی امیدیں بانجھ ہی رہیں۔ پائیدار معاشی و انتظامی اصلاحات نافذ کرنے کے بجائے، مودی بڑی مالیت کے نوٹ کینسل کرتے رہے یا عالمی یاترا پر رہے اور یہ تاثر جمانے کی ناکام کوشش کی کہ بیرونی سرمایہ کاری سے ’’میڈ اِن انڈیا‘‘ کا دور آیا ہی چاہتا ہے۔ شاید پیش نظر چین کا سرمایہ دارانہ مارکیٹ نظام تھا، مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
اس کے برخلاف معاشی و سیاسی پس منظر پر بڑے سرمایہ داروں کا غلبہ بڑھا۔ امیر و غریب میں خلیج مزید وسیع ہوئی۔ انتظامی معاملات میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا وزیراعلیٰ ایک سادھو کو لگایا جس کا ایجنڈا محض زعفرانی انتہا پسندی کا فروغ تھا۔
دفاعی و خارجی محاذ پر مودی سرکار کی واحد سعی پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنا تھا۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول نے ببانگ دہل کہا کہ پاکستان کو ہزاروں رستے ہوئے زخموں سے زک پہنچائے گا۔ اس ناپاک مقصد میں امریکا اور افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ را، سی آئی اے، افغانی این ڈی ایس کی ٹرائیکا تشکیل دی۔ افغانی سرزمین پر پاکستان مخالف عناصر کو منظم کیا، پیسہ اور اسلحہ تھمایا اور پھر بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے رکھا ( بھارتی حاضر سروس نیول جاسوس کلبھوش کیس اس کی زندہ مثال ہے جس کا کیس آج کل عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت ہے اور ھندوستان کیلیے شرمندگی کا باعث ہے ) عوامی احتجاج کے باوجود پاکستانی ریاست نے صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا اور مذاکرات کی پیہم پیشکش کرتی رہی۔
پاکستان کی متعدد کوششوں کے باوجود مودی سرکار نے کشمیر پر مذاکرتی عمل میں کوئی سنجیدگی نہ دکھائی۔ ہندوستان جو امریکا کی پشت پناہی میں ہواوں کے دوش پر سوار ہے، اس خام خیالی کا شکار رہا کہ ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے اس خطے میں اپنی تھانیداری جمائے گا۔ ہندوستانی زعم بلاوجہ نہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں دائیں بازو کے عناصر سرایت کرچکے ہیں۔ ہندوستانی مقتدر حلقوں میں یہ باور کرلیا گیا ہے کہ چونکہ پاکستان کمزور معاشی دور سے گزر رہا ہے، تو جنگی جنون دکھا کر اور بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان جہاں دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے اندرونی مسائل سے دوچار رہا، وہیں بدانتظامی اور معاشی بدحالی نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس پر مستزاد سابقہ حکومتوں کی کشمیر پالیسی بھی ہے جو سیاسی مصلحتوں کی شکار رہی۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی مولوی فضل الرحمان جیسے شخص کو دی گئی جس کی اس باب میں اہلیت، قابلیت اور دلچسپی سوالیہ نشان رہی۔ نواز دور میں ہندوستانی قیادت کے ساتھ تعلقات ذاتی مفادات کے تابع رہے۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا ورد کرتی بھارتی حکومت، کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی رہی اور پاکستانی قیادت مودی کو "شالوں” کے نذرانے پیش کرتی رہی۔
مذاکرات کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکاری نہیں مگر یہ عمل دو طرفہ ہونا چاہیے اور قومی وقار، سالمیت اور دفاع پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔
بی جے پی کا کُلّی دور حکومت مسلمانوں بالخصوص کشمیری حریت پسندوں کے خون سے عبارت رہا۔ کشمیر کی وادی آج لہو رنگ ہے۔ شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جہاں سے جوان لاشہ نہ اٹھا ہو۔ ہندوستانی حکومت فسطائیت کے تمام ہتھکنڈے آزما چکی ہے۔ لاٹھی چارج اور پیلٹ گن سے بات بڑھ کر بلٹ اور ممنوعہ آتشیں اسلحے تک پہنچ چکی ہے۔ حریت کے متوالوں کا جرم محض انصاف طلب کرنا ہے آزادی کی صدا بلند کرنا اور ان معاہدوں کی پاسداری کا مطالبہ ہے جو ہندوستانی حکومت اقوام متحدہ میں بارہا تسلیم کرچکی ہے۔
مئی 2019 میں ہندوستانی انتخابات طے ہیں۔ مودی سرکار کی پالیسیوں کی بدولت ہندوستانی سماج ہندوتوا کا آئینہ دار ہے جبکہ سیکولر ریاست کہیں ہوا میں تحلیل ہوچکی ہے۔ آج مسلم جان بے وقعت جبکہ گاؤ رکھشا کے لیے اربوں روپے مختص ہیں ۔
خواتین ، اقلیتیں، صحافی، اور انسانی حقوق کے کارکن سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور سماجی عدم تحفظ اس حکومت کا طرہ امتیاز بن چکا، مزید برں اپوزیشن کے مسلسل دباؤ سے حکومت کے حواس مختل ہیں۔ عوام حکومتی دعووں سے عاجز آچکے ہیں اور متبادل قیادت کو آزمانے پر تیار ہیں جس کی مثال حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی پے در پے شکست ہے۔ ایسی صورتحال میں مودی حکومت سے کوئی بھی ایسی سازش بعید ازقیاس نہیں جو انتخابات میں کامیابی کے امکانات بڑھائے۔
پلوامہ حملہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ 2014 سے اب تک مودی سرکار ہزاروں نوجوانوں کو شہید اور ہزاروں کو پس زندان دھکیل چکی ہے۔ آج کشمیری نوجوان جبری حالات پر دل گرفتہ ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پر تیار۔ فدائی حملے تحریک آزادی کشمیر میں نیا رجحان ہے جو کشمیری نوجوانوں کی موجودہ نظام میں رہتے ہوئے پر امن احتجاج سے مایوسی کی علامت سمجھی جانی چاہیے۔
سوال نئی پاکستانی حکومت سے ہے کہ کیا وہ اپنی جمود کی پالیسی کو ختم کرے گی؟ پلوامہ حملہ کے بعد مودی سرکار انتقام میں اندھی ہوچکی ہے۔ اپنے سورماؤں کو جبری ضابطوں کی کھلم کھلا چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ہندوستان کے دورے پر گئے زائرین کو48 گھنٹے میں ہندوستان چھوڑنے کی ہدایت کردی گئی ہے ، پاکستان سےامپورٹ معطل کردی گئی ہے ، سندھ طاس معاھدہ ختم کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ، کچھ عجب نھیں کہ پلوامہ حملے کو جواز بناکر ” کرتار پور کاریڈور ” معاہدہ بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا جائے ، پاکستانی حکومت کا ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہندوستانی ظلم کو مزید شہ دے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلائے، وزیر خارجہ طاقتور ممالک کے دورے کریں اور پاکستانی سفارت خانے اپنے اپنے متعلقہ ممالک میں ہندوستانی مظالم کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔ جب تک سفارتی محاذ پر ایک انتھک مہم بپا نہیں کی جاتی، ہندوستانی مظالم کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے آج مختصر خطاب میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ نئے پاکستان میں ہم اس بات پر مکمل یقین رکھتے ھیں کہ تمام متنازعہ مسائل بات چیت کے ذریعے طے کیے جائیں ، انھوں نے بھارتی قیادت کو بھی یہ باور کرایا کہ اگر پلوامہ حملے کے بارے میں ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو وہ پاکستان حکومت سے شیئر کیے جایئں ، انھوں نے ہندوستان حکومت کو یہ بھی یقین دلایا کہ حکومت پاکستان ان شواھد پر بھوپور ایکشن لے گی .
انھوں نے ھندوستان حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ کسی ایڈوینچر سے باز رھے موجودہ حکومت ایسی کسی کار روائی کا جواب دینے کا سوچے گی نھیں بلکہ فوری جواب دے گی .
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذ مت کرتی ہے اور جنگ کو کسی مسلئے کا حل نھیں سمجھتی ۔