میں نے اپنی بھرپور پیشہ ورانہ زندگی میں تھوک کے حساب سے تعریف اور تنقید بھگتائی ہے لیکن اللہ کے کرم اور والدین کی تربیت کے نتیجہ میں طبیعت ایسی پائی ہے کہ نہ تعریف دماغ خراب کرتی ہے نہ تنقید دل پہ لیتا ہوں، جس بات کو صحیح سمجھتا ہوں، سر پھینک کے اس پہ ڈٹا لگا رہتا ہوں۔ نیت میں کھوٹ نہیں، عقل دھوکہ دے جائے تو غلطی کے اعتراف میں کبھی دیر نہیں لگائی کیونکہ بچپن سے جانتا ہوں کہ ’’عقل کل‘‘ اور "MR KNOW ALL” کوئی نہیں ہوتا لیکن چند سطروں پر مشتمل گزشتہ کالم پر ’’ری ایکشن‘‘ اک انوکھا ترین تجربہ تھا۔طبیعت کچھ دنوں سے کچھ بیزار و ناہموار سی ہے۔ کالم لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن یہ خبر پڑھ کر تن بدن میں آگ سی لگ گئی، اپنی نظروں میں گر گیا، روح تک پر چھالے پڑ گئے کہ ایک دو، چار، پانچ نہیں پورے 9سال بعد ایک اداکارہ دو بوتل شراب کیس سے ’’باعزت‘‘ بری ہو گئی۔ یہاں عزت کیا بے عزتی کیا؟ قائد کیا اور قیدی کیا؟ کوئی قتل ہوا، کوئی پھانسی چڑھا کوئی جلا وطن ہوا…..ہم کیا ہماری قیادتیں کیا؟ قدم قدم پر اک سرکس ہے جسے مقدس نام دے دیئے جاتے ہیں۔خدا کی پناہ، عوام کو کہیں پناہ نصیب نہیں جانے کس کردہ ،ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں جو کئی عمروں کی قید پہ بھاری ہے کہ یہ نظام نسلیں کھا جانے کے بعد بھی ’’آدم بو‘‘ ’’آدم بو‘‘ پکار رہا ہے۔
کراچی سے لاہور تک کربلا کہ پینے کو صاف پانی اور کھانے کو سستی روٹی نہیں لیکن مسئلہ ہے کیا؟9سال دو بوتل شراب 210 پیشیاں اور 16جج تبدیل کوئی ہے اس ملک معاشرہ میں جو اس کیس پر اٹھنے والے اخراجات، وقت، سرکاری غیر سرکاری انرجی کا تخمینہ لگا کر ان بچوں کی قبروں پر نصب کرے جنہیں والدین بھوک سے پاگل ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔بھلے زمانوں میں غلاموں کی پشتیں داغ دی جاتی تھیں تو کیوں نہ اس اہم کیس پر ’’انویسٹ‘‘ کی گئی رقم کا تخمینہ ان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کے ماتھوں پر کھود دیا جائے جن کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ ستاروں پر کمندیں ڈالیں گے لیکن انہیں ’’کلرکی‘‘ بھی نصیب نہیں۔ اس نے کہا ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ واقعی فلمی اور ٹی وی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں جہاں رشوت، کمیشن کک بیک، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جھوٹی گواہیاں، دو نمبر دوائیاں، عدم تحفظ، کرنسی کی بے حرمتی، مہنگائی، خوشامد، نمود و نمائش، جعلی جمہوریت وغیرہ وغیرہ سمیت ہر مسئلہ حل ہو چکا، ہر برائی ختم ہو چکی…..صرف ’’دو بوتلیں‘‘ باقی رہ گئی تھیں جنہیں بالآخر طویل جدوجہد بلکہ جنگ کے بعد منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا۔’’مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو‘‘اور یہ ہر مبارک ویسی ہی ہے جیسی شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے کنٹینر پر ہمیں پیش کی تھی۔گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ اس کیس کے فیصلہ نے مجھے بری طرح ’’اکیلا‘‘ کر دیا ہے اور اس ’’اکیلگی‘‘ کی اذیت کو صرف میں جانتا ہوں یا میرا رب جانتا ہے۔ عجیب بات ہے میرے قارئین نے اس ’’اکیلگی‘‘ کو اچک لیا اور بہت سوں نے پوچھا اس ’’اکیلے پن‘‘ سے میری مراد کیا ہے؟ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر خود کو عریاں کرنے سے بچنے اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے میں نے گول مول ’ملفوف‘ لگی لپٹی والی بات کی تھی ورنہ کہنا تو میں یہ چاہتا تھا کہ اس خبر پر میں نے خود کو انتہائی تنہا، پسپا، پسماندہ، بے آسرا، حقیر، کمتر، لاوارث، غیر محفوظ، رسواء ، نیم پاگل، ابنارمل، مخبوط الحواس، بیچارہ، دھتکارا، بے سمت، بے راہرو اور بے نام و نشان سا کوئی انسان نما جانور محسوس کیا جو اپنی کیفیت بھی بیان نہیں کر سکتا۔کیا ہم واقعی نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا کچھ ہو چکا ہے، کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا کچھ ہو سکتا ہے اور کیا ہم واقعی نہیں جانتے کہ ہماری نام نہاد ترجیحات کیا ہیں اور اگر انہیں تبدیل نہ کیا تو خاکم بدہن…..’’اک قبا اور بھی ہم زیر قبا رکھتے ہیں‘‘چشم بددور…..ذاتی زندگی بہت ہی شانت ہے لیکن دکھ یہ کہ دکھ بہت ہیں جو کھل کر بیان بھی نہیں ہو سکتے۔ ایسے ایسے ’’عظیم فیصلوں‘‘ کی گونج سنائی دیتی ہے کہ سنائی دینا، دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے اور یہاں دہائی دینا بھی ممکن نہیں۔جان اور ایمان بچانے کے لئے کہیں اور جانا ہو گا لیکن کہاں؟ یہی فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ ہجرت کے لئے عمر کی بھی ایک حد ہوتی ہے جو عبور کر چکا۔مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دےمیں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دےلیکن مکانوں کا گھروں میں تبدیل ہونا آسان نہیں ہوتا اور اب تو یہ گھر بھی کرائے کا لگتا ہے جس کے ‘‘اصل مالکان‘‘ کرائے داروں کو جینے تو کیا، ڈھنگ سے مرنے اور سوچنے بھی نہیں دیتے تو پھر وہ صوفی شاعر یاد آتا ہے جس نے کہا تھاچل بلھیا چل اوتھے چلیئے جتھے سارنے انہےناں کوئی ساڈی ذات پچھانے ناں کوئی سانوں منےلیکن دل کی بات تو کر سکیں چاہے وہاں دل لگے نہ لگے۔
یہاں تو اتنی آزادی بھی نہیں جتنی اس بچے کو تھی جس نے سرعام کہہ دیا تھا کہ…. ’’بادشاہ ننگا ہے‘‘ جبکہ یہاں تو بادشاہ کیا، درباری حواری، سرکاری غیر سرکاری، سبھی اس حمام میں ستر پوش ہی نہیں، نقاب پوش بھی ہیں۔ ’’گینگز‘‘ کے سامنے ’’اکیلا‘‘ آدمی کیا کرے؟’’ہیروئین‘‘باعزت بری ہو گئی’’ہیروئین‘‘ آزاد ہے2بوتل کا فیصلہ ہو گیابوتل کا جن دندتا پھر رہا ہےآدم بو…..آدم بو……آدم بوتل
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ