یہ قسط وار کالم کسی ٹارچر سے کم نہ تھا جو میرے لئے وہ کمبل بھی بن گیا جس کے بارے یہ محاورہ بنا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ ان قسطوں میں قدم قدم بلکہ سطر سطر یہ احساس ہوا کہ صدیوں سے ہم خود ہی اپنے لئے بہت کافی ہیں۔ کسی دشمن کو زحمت کی ضرورت نہیں۔ اتحاد کی جگہ انتشار اور ہوس اقتدار، انائیں برسرپیکار، اخوت پہ پھٹکار۔ حکم تو یہ تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا بدن اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اگر دو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں، ایک مارا جائے تو قصور وار کون ہو گا؟ فرمایا ’’دونوں کہ ارادہ تو مقتول کا بھی یہی تھا کہ قاتل کو قتل کر دے‘‘۔
بہرحال مجھے اعتراف کرنا ہو گا کہ میں نے طوالت سے خوفزدہ ہو کر کچھ اہم تاریخی ایونٹس کو بائی پاس بھی کیا جس پر معذرت خواہ ہوں۔ مختصراً یہ کہ ’’پڑھتا جا شرماتا جا‘‘ اور ممکن ہو تو سوچتا بھی جا۔1908ء۔ YOUNG TURKS کا انقلاب عثمانی سلطان کو دستور کی بحالی پر مجبور کرتا ہے۔1914-18ء۔ برطانیہ مصر کو اپنا محروسہ ملک قرار دے دیتا ہے، ایران پر برطانوی اور روسی فوجیں قابض ہو جاتی ہیں۔1916-21ء۔ عرب برطانویوں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔ 1917ء۔BALFOUR DECLARATIONبرطانیہ فلسطین میں یہودی وطن کیلئے باقاعدہ تائید و حمایت مہیا کرتا ہے۔ (آج اسی کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں)1919-21ء۔ اتاترک یورپی طاقتوں کو خلیج میں روکے رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ایک آزاد ترک ریاست قائم کرتا ہے۔ وہ سیکولر اور انقلابی پالیسیاں اختیار کرتا ہے (1924-8) 1920-22ء۔ گاندھی برطانوی حکمرانی کے خلاف دو عوامی مہمات کے ذریعہ ہندوستان کے عام لوگوں کو بیدار و متحرک کرتا ہے۔1921ء۔ رضا خان ایران میں کامیاب انقلاب کی بنیاد رکھ کر پہلوی عہد کا آغاز کرتا ہے۔1922ء۔ مصر کو رسماً آزادی مل جاتی ہے۔1932ء۔ سعودی عرب کا قیام ۔1935ء۔مصر میں ریفارمر اور صحافی راشد رضا کی وفات۔1938ء۔ ہندوستان میں علامہ اقبال کی وفات۔1939-45ء۔دوسری جنگ عظیم۔ برطانوی رضا شاہ کو معزول کرنے کے بعد اس کے بیٹے محمد رضا کو جانشین قرار دیتے ہیں (1944)1940ء۔ دہائی:اخوان المسلمون مصر کی مضبوط سیاسی قوت بنتی ہے۔1945ء۔ ترکی اقوام متحدہ میں شامل ہوتا ہے۔1947ء۔ عرب لیگ کی تشکیل1946ء۔ ہندوستان میں فرقہ ورانہ فسادات کے بعد مسلم لیگ ایک الگ ریاست کے لئے باقاعدہ تحریک کا آغاز کرتی ہے۔1947ء۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ’’اسلامی‘‘….. ’’جمہوریہ‘‘ ……’’پاکستان‘‘ وجود میں آتا ہے جو آج تک اسلام، جمہوریت اور پاکیزگی کی تلاش میں ہے۔
قارئین!اس کے بعد مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے لے کر باقی پاکستان کا بال بال قرضوں میں جکڑے جانے تک کی ساری کہانی ہم سب کے سامنے ہے۔باٹم لائن یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر، شہر قائد بدبو دار کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سیاستدان حسب معمول دست و گریبان۔ بارشوں کا پانی سنبھالا نہیں جاتا لیکن عام آدمی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور 73سال بعد بھی اقبال کے شاہینوں کا سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی اور روزگار ہے اور عوام مختلف قسم کے مقدس و غیر مقدس مافیاز کے پاس یرغمال پڑے ہیں۔’’تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا‘‘ گھر ہوتا تو آتا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ