کتاب کا نام مجھے یاد نہیں مگر ذکر کسی جابر اور عیاش حکمران کا تھا ، مورخ نے اُس کے بارے میں لکھا تھا کہ ایک دن عالی مرتبت اپنی تمام لونڈیوں سے بور ہوگئے جن کی تعداد تین سو کے قریب تھی ، انہوں نے حکم دیا کہ سب لونڈیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں دریا میں ڈبو دیا جائے۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ حکم کی تعمیل ہوئی ۔غالباً یہ دو تین سو سال پرانا واقعہ ہے،میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو سوچا کہ جس طرح آج ہم تین سو سال پرانی تاریخ پڑھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح آج سے تین سو سال بعد کا مورخ جب تاریخ لکھے گا تو کیسی لکھے گا!چند نمونے ملاحظہ کیجیے ۔۔۔!
شادی: تین سو سال پہلے کا انسان عجیب و غریب رسومات میں جکڑا ہوا تھا، اِن میں سے ایک رسم شادی کی تھی ، اِس رسم کے مطابق اگر کوئی جوان لڑکی اور لڑکا ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیتے تو پھر اُس کا باقاعدہ اعلان کی جاتا تھا ، تقریبات منعقد کی جاتی تھیں اور سینکڑوں رشتہ دار اور دوست جمع ہوکر جوڑے کو مبارکباد دیتے تھے ۔کبھی کبھی یہ تقریبات کئی دن تک جاری رہتیں اور اُن پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ، اس موقع پر لڑکی اور لڑکے کے دوست گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے مخصوص انداز میں تھرتھراتے ،یہ مخصوص کیفیت ہوتی تھی جسے ناچنا کہاجاتا تھا، یہ اُس زمانے میں خوشی منانے کا مروجہ طریقہ تھا۔اِن تقریبات میں سب سے اہم دن بارات کا ہوتا تھا ، اُس روز لڑکی بیش قیمت لباس پہنتی تھی جس کی مالیت لاکھوں روپے تک ہوتی تھی ۔ مشہور مورخ ایکس 532498 لکھتا ہے کہ بارات کے موقع پر مہنگے ملبوسات پہننے کی رسم کئی سال تک جاری رہنے کے بعد اُس وقت ترک کردی گئی جب موسمی تغیرات کی وجہ سے دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ بعض خطوں میں لڑکا اور لڑکی غیر رسمی طور پر بھی اکٹھے رہتے تھے جسے Live in relationship کہا جاتا تھا اور اسے اُن علاقوں میں بے حد معیوب سمجھا جاتا تھا جہاں شادی کی رسم رائج تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن تمام رسومات کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوتے تھے وہ صرف اُس جوڑے کی ملکیت ہی سمجھے جاتے تھے اور پوری سوسائٹی اُن کی نگہبان تصور نہیں ہوتی تھی ،اسی لیے غریب ممالک میں بن ماں باپ کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا۔
قانون: اُس زمانے کا انسان اپنی جس تخلیق پر بے حد فخر کرتا تھا وہ قانون تھی ۔ہر سوسائٹی آپس میں مل جُل کر رہنے کے لیے کچھ اصول طے کر لیتی تھی ،اصولوں کا یہ مجموعہ قانون کہلاتا تھا ۔اکثر اوقات یہ قانون اِس قدر پیچیدہ ہوتا تھا کہ اُس کی تشریح کرنے کے لیے ضخیم کتابیں لکھنی پڑتیں مگر اِس کے باوجود انسان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے ۔ اِن جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے انسانوں نے عدلیہ کا محکمہ قائم رکھا تھا جہاں لوگ سیاہ کپڑے پہن کر دھواں دھار بحث کرتے تھے اور اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی مختلف کتابوں کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اُن کا مقدمہ درست ہے اور اُن کے مخالف کا غلط۔اُس دور کا انسان یہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ انسانی سوسائٹی کسی قانون کے بغیر بھی محض اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر قائم رہ سکتی ہے جنہیں کسی کتاب سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ۔مورخ ایکس 532498 لکھتا ہے کہ اُس دور میں لوگوں کو محض اِس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا یا عمر قید میں رکھا جاتا تھاکہ اُن کے پاس سیاہ کپڑے پہن کربحث کرنے والے ماہرین کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے ۔
سماج: تین سو سال پہلے کے انسان کو یہ زعم تھا کہ وہ بے حد مہذب ہے ، اگر آپ اُس زمانے کی کتابیں پڑھیں تو یہ تاثر ملے گا جیسے اُس وقت کا انسان اِسی بات پر شاداں تھا کہ وہ پتھر کے دور سے آگے نکل آیا ہےلیکن عجیب بات ہے کہ اُس وقت بھی انسان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ گوشت کھانا تھا ۔مورخ ایکس 532498 لکھتا ہے کہ اُس دور میں جانوروں کا سر کاٹ کر اُن کی کھال اتاری جاتی اور پھر اُن کی بوٹیاں کرکے دہکتے کوئلے کے اوپر لگی ہوئی سیخوں پر چڑھا دی جاتیں جنہیں بڑی رغبت سے کھایا جاتا تھا ۔انسان اکثر دعوتوں میں دیدہ زیب لباس پہن کر شرکت کرتے جہاں وہ جانوروں کے گوشت کے پکوان کھاتے اور ایک دوسرے کے سامنے مہذب اور شائستہ نظر آنے کا مظاہرہ کرتے ۔اکثر خوشی کے موقعوں پر مختلف جانوروں کو کاٹ کر اُن کا گوشت ہانڈی میں ڈال کر پکایا جاتا اور مہمانوں کو پیش کیا جاتا، اُس دور کا سوشل میڈیا دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ زرق برق لباس میں ملبوس خواتین اِن جانوروں کا گوشت پکاتے ہوئے اپنی تصاویر شئیر کرنے کو فخر کی علامت سمجھتی تھیں۔اور صرف خوشی منانے کے لیے ہی نہیں بلکہ غمی کے موقع پر بھی یہ انسان اپنے سے کمتر مخلوق کو چھری سے کاٹتے اور پھر اُس کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے دیگوں میں ڈال کر پکاتے اور اُن مہمانوں کی تواضع کرتے جو اُن کی غمی میں شریک ہونے کے لئے آئے ہوتے۔
سیاست: تین سو سال پہلے کے انسان کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں منظم اور مہذب انداز میں رہنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت رہتی تھی۔ اپنے تئیں انسانوں نے آمریت اور بادشاہت کی جگہ جمہوریت کا نظام متعارف کرواکے ایک عظیم کارنامہ انجام تھا ، اُس دور میں اگر ایک ملک ہزار سال پرانی جمہوریت کا دعویٰ کرتا تھا تو دوسرا ملک سب سے بڑی جمہوریت ہونے کو باعث فخر سمجھتا تھا۔انسانوں کی اُس نسل کے ذہین افراد بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ حکومت اور نظام کے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے ، اگر وہ 2324 میں ہوتے یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتے کہ آج کا انسان کیسے رسمی نظامِ حکومت کے بغیر زمین پر زندہ ہے۔ مقامی سیاست کی طرح اُس دور کی عالمی سیاست بھی بے حد عجیب تھی، کچھ ضابطے انسانوں نے بنا رکھے تھے مگر اُن پر شاذو نادر ہی عمل ہوتا تھا۔زمین پر تمام انسان برابر نہیں تھے اور نہ ہی وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں آزاد تھے، ایک خطے کے انسان کو اگر کسی دوسرے خطے میں جانا ہوتا تو وہ پہلے ایک کتابچہ حاصل کرتا جسے پاسپورٹ کہا جاتا تھااور پھر اُس خطے کا اجازت نامہ حاصل کرتا جہاں اسے جانا ہوتا، اِس کو ویزا کہا جاتا تھا۔غریب اور پسماندہ خطوں میں رہنے والوں کے لیے یہ عمل بے حد تکلیف دہ اور پیچیدہ ہوا کرتا تھا۔اسی طرح مختلف خطوں کے درمیان انسانوں نے لکیریں کھینچی ہوئی تھیں اور وہاں اپنی طاقت کے زور پر مملکتیں بنائی ہوئی تھیں،اُس زمانے کے انسان کا خیال تھاکہ یہ مملکتیں آئندہ ہزاروں سال تک قائم رہیں گے ۔ وہ اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے تھے کہ جس خطے میں وہ پیدا ہوئے ہیں اُس کی مٹی سیارے کی باقی مٹی سے برتر ہے لہذا اِس کی حفاظت کے لیے دوسرے انسانوں کا خون بھی بہانا پڑے تو غلط نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آج سے تین سو سال بعد جو تاریخ لکھی جائے تووہ اِس تاریخ سے مختلف ہوجس کا خاکہ میں نے بیان کیا ہے مگر ایک بات ضروری کہی جا سکتی ہے کہ جن چیزوں ، رسموں اور قوانین کو ہم آج مقدم سمجھتے ہیں وہ اسی طرح غیر ضروری اور نا پید ہوجائیں گی جس طرح تین سال پہلے کی روایات اور رسومات اب فرسودہ ہو چکی ہیں ۔یقین نہیں آتا تو غلامی سے متعلق کوئی تاریخی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، طبعیت روشن ہوجائے گی۔
( گردو پیش کے لیے ارسال کیا گیا )
فیس بک کمینٹ