یوں تو حکومتِ وقت ہر سال بجٹ میں کچھ نہ کچھ نیا کر کے عوام کے ہوش اُڑا دیتی ہے، مگر اس بار تو کمال ہی ہو گیا۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں ایک ایسی اسکیم متعارف کروائی گئی ہے جس نے لوگوں کے چہروں سے ہوائیاں اُڑا دیں اور لبوں پر ہنسی کے فوارے بھی چھوٹ گئے۔ جی ہاں! اب صرف موٹر سائیکل اور گاڑیاں نہیں، انسانوں کو بھی نمبر پلیٹ لگے گی۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ عوامی نظم و ضبط قائم رکھنے، غیر ضروری لفنگی پن ختم کرنے اور پیدل ٹریفک کنٹرول کے لیے کیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی بندہ سڑک پار کرتے ہوئے ٹریفک قانون توڑتا پایا گیا تو اس کا بھی چالان ہو گا — نہ شناختی کارڈ، نہ ڈرائیونگ لائسنس، سیدھا نمبر پلیٹ سکین کر کے جرمانہ۔
حکومت کے مطابق یہ “سمارٹ ہیومن پلیٹ” ہو گی جو سینے پر لگی نظر آئے گی۔ ہر بندے کی پلیٹ منفرد ہوگی، مثلاً شادی شدہ افراد کی پلیٹ پر دل کے بیچ بیوی کا نام کندہ ہوگا تاکہ کوئی “غلط فہمی” پیدا نہ ہو۔ کنواروں کی پلیٹ پر “Beware – Single on the Road” لکھا ہو گا۔ طلاق یافتہ حضرات کی پلیٹ پر ہلکا سا بجلی کا نشان بنا ہو گا تاکہ لوگ پہلے سے محتاط رہیں۔ بیواؤں اور رنڈووں کے لیے کالے رنگ کی پلیٹ تجویز کی گئی ہے، جس پر چھوٹے حروف میں “Life Restarting Soon” لکھا ہو گا۔
سب سے دلچسپ شق وہ ہے جس نے ملک بھر کے مرد حضرات کو فکرمند کر دیا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کو ایک ہی نمبر پلیٹ الاٹ کی جائے گی۔ اگر شوہر کسی پارک، پلازہ یا چائے کے ڈھابے پر کسی اور خاتون کے ساتھ نظر آیا تو پولیس فوراً سسٹم چلا کر دیکھے گی کہ “ارے بھئی یہ تو مسٹر اور مسز ایک ساتھ رجسٹرڈ ہیں!” یوں "سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے پہلے” ہی پکڑ دھکڑ مکمل ہو جائے گی۔
ہر سال ان نمبر پلیٹس کی تجدید لازمی قرار دی گئی ہے۔ نیا اسٹیکر نہ لگانے کی صورت میں پیدل چالان ممکن ہو گا۔ شہریوں کو موبائل ایپ کے ذریعے یاددہانی کرائی جائے گی:
“محترم شہری، آپ کی شادی شدہ حیثیت میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی؟ اگر آئی ہے تو براہ کرم نمبر پلیٹ اپڈیٹ کروائیں ورنہ نئی زندگی کے ساتھ پرانی پلیٹ مسئلہ بن سکتی ہے!”
وزارتِ اخلاقیات نے الگ سے اعلان کیا ہے کہ یہ اقدام معاشرتی بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ اگر کوئی شوہر دفتر سے کہے “میٹنگ لمبی ہے” اور نمبر پلیٹ ڈیٹا دکھائے کہ وہ مال روڈ کے آئس کریم پارلر میں ہے تو بیگم کے پاس فوراً “پنگ” جائے گا۔ یوں اب "پکڑے جانے” کے لیے سی سی ٹی وی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
کچھ شہریوں نے اسے “دنیا کا سب سے شفاف نظام” قرار دیا، مگر کچھ نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ “بھائی پہلے مہنگائی سے جان چھڑاؤ، پلیٹ بعد میں لگانا۔” ایک کنوارے نوجوان نے میڈیا کو بتایا، “مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، بس پلیٹ کے ساتھ اگر کوئی رشتہ فارم بھی دے دیں تو آسانی ہو جائے گی۔” جبکہ ایک بزرگ شہری نے فرمایا: “ہم نے زندگی بھر شناختی کارڈ، ڈومیسائل، اور نادرا کے فارم بھرتے گزار دیے، اب اگر سینے پر نمبر پلیٹ لگنی ہے تو کوئی تعجب نہیں — حکومت ویسے بھی دلوں پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے!”
پولیس محکمے نے خوشی کے مارے بانسری بجانا شروع کر دی ہے۔ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: “اب ہمیں رکشوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں، اب پیدل بندے کا بھی ای چالان ہو جائے گا۔ جو بندہ سڑک غلط سمت سے پار کرے گا، ہم سیدھا نمبر پلیٹ اسکین کریں گے۔”
عالمی اداروں نے بھی اس انوکھی اسکیم میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ جاپان نے پیشکش کی ہے کہ وہ “شمسی توانائی سے چلنے والی انسانی پلیٹس” فراہم کر سکتا ہے جو رات میں جگمگائیں گی۔ ادھر برطانیہ کے ایک اخبار نے طنزاً لکھا: “پاکستان میں اب انسان بھی رجسٹرڈ گاڑیاں بننے جا رہے ہیں — بس فرق یہ ہوگا کہ انجن کے بجائے دل دھڑکے گا!”
اب آپ تصور کیجیے کہ لاری اڈے، بازار، یا شادی کی تقریب میں لوگ چمکتی ہوئی نمبر پلیٹیں لیے پھرتے ہوں گے۔ دلہن کے ساتھ آنے والے مہمانوں کے پلیٹ نمبر اسکین کیے جا رہے ہیں، بیویاں شوہروں کے پلیٹ لاگ چیک کر رہی ہیں، اور پولیس اہلکار محبت بھری ملاقاتوں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ ایک نوجوان نے فیس بک پر مزاحیہ پوسٹ ڈالی: “لگتا ہے اب محبت بھی رجسٹریشن کے بغیر غیر قانونی قرار پائے گی۔”
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اسکیم سے ملک میں نظم و ضبط، اخلاقیات اور سڑکوں کی صفائی تینوں میں بہتری آئے گی۔ مگر عوام کہہ رہے ہیں کہ "پلیٹ تو لگ جائے گی، پر پلیٹ بھرنے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟” ایک بزرگ مزاحیہ شاعر نے خوب کہا: “ہم تو سوچ رہے ہیں اگلے بجٹ میں شاید حکومت سانس لینے پر بھی ٹوکن لگا دے — صبح سانس لو تو رسید کٹواؤ، شام کو تجدید کرواؤ!”
اگر یہی رفتار رہی تو آنے والے برسوں میں ہر پاکستانی سینے پر نمبر پلیٹ، ہاتھ میں شناختی کارڈ، اور جیب میں چالان لیے پھر رہا ہو گا — اور پھر کوئی کہے گا:
“یار! گاڑیوں کا کیا قصور تھا، انسان ہی زیادہ بگاڑ میں نکلے!”۔۔ قارئین کرام آپ اس تحریر کو پڑھ کر خوفزدہ ہو گئے ہوں گے اور اپنی نمبر پلیٹ بنوانے کے لیے آپ نے سنجیدگی سے سوچنا بھی شروع کر دیا ہو گا لیکن خوف زدہ نہ ہوں ہم نے تو ایک مفروضے پر کالم لکھ دیا ہے کہ جس طرح شناخت قدم قدم پر ضروری ہو گئی ہے کل کو ایسی صورت حال بھی تو پیدا ہو سکتی ہے ۔۔
( شہزاد عمران خان چند روز میں صاحب کتاب ہونے والے ہیں ۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نت نئے موضوعات پر قلم اٹھا رہے ہیں ۔ ہم ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں ۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔ رضی الدین رضی ۔۔ مدیر گردوپیش )
فیس بک کمینٹ

