کافی عرصہ لکھتے ہوئے گزر گیا، پہلی تحریر سے آج تک ایک موضوع ادھار ہے۔ میں اس ٹاپک پہ لکھتے ہوئے بار بار بدک جاتا ہوں۔ میں اپنی ماں سے ڈرتا ہوں۔ وہ میری ایک ایک رگ سے واقف ہے۔ جہاں میں شروع ہوتا ہوں وہاں سے تین سو کلومیٹر دور کھڑی ہوئی وہ جان جاتی ہے کہ انجام کیا ہو گا۔ وہ کوئی ولی اللہ نہیں، بہت زیادہ عبادت گزار اور بزرگ ٹائپ کی خاتون بھی نہیں‘ لیکن اپنے بچے کے لیے وہ ایک مکمل اماں ہے۔ اماں‘ جسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ اگر کوئی بات کر رہا ہے تو وہ کتنے پانی میں ہے، وہ اصل میں کس اینگل سے بول رہا ہے‘ اور کہاں جا کے اس کی تان ٹوٹے گی۔ امی کی زبان سے ہی سنا محاورہ ہے کہ گونگے کی ماں اس کی ہر رمز پہچانتی ہے، ادھر تو بھائی بولتا ہے، لکھتا ہے، چھپتا ہے، سبھی کچھ ہوتا ہے لیکن جو نہیں کہہ پاتا ماں وہ رمزیں بھی جانتی ہے۔ تو بس لکھتے ہوئے بچہ ڈرتا ہے کہ ایسے لفظ کدھر سے اکٹھے کرے جو ماں کی سمجھ اور اس کے گیان دھیان کا حق ادا کر سکیں لیکن بچہ سیف زون میں بھی رہے۔
میں پیدا ہوا تو ماں کو ساری عمر کی تکلیف میں ڈال دیا۔ کچھ ایسے مسائل ہوئے جن کی وجہ سے بہت سارا خون ماں کو لگوایا گیا، نامعلوم کہاں گڑبڑ ہوئی کہ میرے بعد سے آج تک ماں جوڑوں کی مریض ہے۔ تکلیف میں ہوتے ہوئے بھی ہنسنا مجھے ماں سے سیکھنا چاہیے تھا‘ لیکن آج تک نہیں آیا۔ پشاور امی کا میکہ ہے۔ جب کوئی فون آئے اور وہ اس طرح شروع ہو، ”ہیلو، کے حال اے، ہاہاہاہا… تو اس کا مطلب ہے کہ فون وہیں سے آیا ہے۔ جتنی مرضی تکلیف ہو، جتنا بڑا مسئلہ ہو کبھی ہنسے بغیر میری ماں نے باپ، بھائی، بہنوں کا فون اٹینڈ نہیں کیا، نانی تو خیر مجھے یاد ہی نہیں وہ شاید مجھ سے پہلے رخصت ہو گئی تھیں۔
امی چنگی بھلی ماڈرن لڑکی تھیں، بوائے کٹ بال، اپنے زمانے کے فیشن والے کپڑے، فلمیں دیکھنا، گانے سننا، ہیپی گو لکی ٹائپ کا حساب کتاب تھا۔ صبح نماز کے لیے نانا اٹھاتے تو کبھی کبھار سجدوں میں بھی سو جاتی تھیں۔ جس دن رزلٹ آنا ہوتا اس دن تو خاص طور پہ کوشش کرتیں کہ گھر پہ نہ ہوں تاکہ نانا کے ساتھ آمنا سامنا ذرا کم ہو۔ یاد رہے وہ اس زمانے کا پشاور تھا جب دورِ ضیا کے اجالے بے قابو نہیں ہوئے تھے۔ تو بس انہی دنوں امی کراچی گئیں، وہاں ان کی بڑی بہن بیاہی تھیں۔ ابا کی بڑی بہن نے انہیں ادھر ہی کہیں دیکھا، اس کے بعد نانا اور دادا میں تھوڑی بہت خط و کتابت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشاور کی لڑکی بیاہ کے ملتان آ گئی۔ امی اکثر بچپن میں سنایا کرتی تھیں کہ وہ لوگ جب بھی پشاور سے ٹرین پہ کراچی جاتے تھے تو جیسے ہی ملتان کا سٹیشن آنے لگتا سب منہ سر پہ دوپٹہ یا تولیہ لپیٹ لیتے کہ اب مٹی کا ایک طوفان شروع ہو گا، بعد میں قسمت اسی مٹیوں کے شہر میں لے آئی۔
اب کیا ہوا کہ امی جب آئیں تو ایک دو دن بعد اچھی طرح گھر کی صفائی ستھرائی کی اور کمرے میں آ کے لیٹ گئیں۔ گھنٹہ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ ملتان کی مشہور زمانہ آندھی چالو ہو گئی۔ ملتان کی آندھی دیکھی ہے کبھی؟ یار آپ کمرے کو ایئرٹائٹ کر دیں، باہر کی آواز اندر نہ آئے اور اندر کی آواز باہر نہ جائے، اس کے بعد ملتان کی آندھی چلا دیں، مٹی اپنا راستہ خود بنائے گی اور اگر کمرے میں آپ خود تشریف رکھتے ہوں تو آپ کے کانوں اور ناک میں آخری حد تک جا کے دکھائے گی۔ بس وہ آندھی جو پھر چلی تو ساری صفائی ستھرائی کا مدر فادر غرق ہو گیا۔ دلہن کو خود بخود رونا آ گیا۔ یہ امی کا ملتان سے پہلا تعارف تھا۔
یہاں پھر وہی بات ہے، یا میں سٹھیا گیا ہوں یا شروع سے پاگل ہوں، جب ساری دنیا ایک طے شدہ طریقے پہ چلتی ہے اور اسے شادی کہتی ہے تو مجھے کیا حق ہے اس پہ بولنے کا، لیکن یار امی جتنی مرضی خوش رہی ہوں، الحمدللہ اچھی زندگی گزاری ہو، میرے باپ جیسا خیال کرنے والا شوہر پایا ہو پھر بھی وہ پشاور سے کوسوں دور آ کے خوش کیسے رہی ہوں گی؟ ہاں یہ شکر ہے کہ ابا پی آئی اے میں تھے تو آنے جانے کا مسئلہ کوئی نہیں تھا، ہمیشہ آرام سے بائے ایئر باپ کے گھر گئیں اور واپس آئیں۔ ویسے وہ ”بائے ایئر‘‘ بھی کمال ہی سین ہوتا تھا۔ ملتان سے پشاور کی ڈائریکٹ فلائٹ‘ ایک منحوس قسم کا فوکر جہاز ہوتا تھا۔ اس نے اڑنا پہلے ملتان سے، اب یہ اڑان لفظ بڑا پیارا ہے‘ فوکر کا ٹیک آف ایک بالکل الگ چیز ہوتا تھا۔ وہ اڑتا اور ابھی سانس سیدھی نہیں ہوتی تھی کہ اس نے ڈیرہ اسمٰعیل خان پہ لینڈنگ کرنی ہوتی تھی۔ آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کے ادھر سے مسافر اٹھاتا‘ اور پھر سے وہی اسفل قسم کا گڑگڑاہٹ سے بھرپور ٹیک آف کرتا اور آدھے گھنٹے بعد ژوب آ کے ڈھیر ہو جاتا۔ مزید آدھا گھنٹہ شکر دوپہر برداشت کرتی ژوب کی پہاڑیوں میں کھڑے رہنے کے بعد پی آئی اے کی وہ اورنج ٹرین پشاور پہنچتی اور جو مسافر ہم لوگوں سمیت ملتان سے چڑھے ہوتے تھے ان کا حال دیکھنے والا ہوتا تھا۔ جہاز کے سفر میں جسم سے ٹرین کی بو آئے ایسا کبھی ممکن ہے؟ فوکر فرینڈشپ میں برابر ممکن تھا۔ سونے پہ سہاگہ تب ہوتا جب کوئی فوکر گوادر سے مچھلیاں اٹھاتا اور کہیں ڈراپ کرکے ملتان کھڑا ہو جاتا۔ استغفراللہ، ایک فوکر جہاز کی اپنی فضا پھر ”سی فوڈ‘‘ کی بدبو! شاید اسی لیے ہم دونوں بھائی جتنے مرضی کلچرڈ ہو جائیں جھینگے نہیں کھا سکتے۔ یا مقدر یا نصیب!
میں کبھی ایک فرمانبردار بیٹا نہیں بن پایا۔ رج کے امی کو تنگ کیا۔ چھوٹا تھا تو امی سٹور میں بند کر دیتی تھیں، تھوڑا بڑا ہوا تو کئی بار فلائنگ چپل مقدر بنی اور بڑا ہوا تو رُلا بھی دیا کئی بار… تھوڑا اور بڑا ہوا تو سارے کس بل نکل گئے، امی بچپن میں اکثر ڈانٹنے کے بعد یہ ضرور کہتی تھیں کہ بیٹا خود کماؤ گے اور گزارہ ہو گا تو پتہ لگے گا کہ سیر میں کتنی پکتی ہیں۔ مجھ کو یقین ہے، سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں۔ خدا ہمیشہ سلامت رکھے اب تو دیکھ بھی رہی ہیں بلکہ یہ پڑھتے ہوئے سوچ بھی رہی ہوں گی کہ کیسا بندے کا پتر بنا ہے۔ لیکن استاد ماں ماں ہوتی ہے، اسے سارے کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ امی جی، اگر مائیں ساری باتیں ٹھیک کرتی ہیں تو بچوں کو شروع سے مت کیوں نہیں آتی؟ جب مچھلی کا بچہ بغیر سکھائے تیرتا رہتا ہے تو انسان کا بچہ کیوں لاکھ سکھانے پہ بھی تمیز سے نہیں سیکھتا؟
آج کل سین یہ ہے کہ امی جوڑوں کے درد کی وجہ سے بہت کم چل پھر پاتی ہیں۔ جو کام بہت ضروری ہو بس اس کے لیے اٹھیں گی اور پھر واپس بیٹھ جائیں گی یا لیٹ جائیں گی۔ یہ وہ خاص والی امی ہوتی تھیں‘ جن سے بیڈ شیٹ کی ایک شکن برداشت نہیں ہوا کرتی، جتنا ممکن ہوتا ہے اب بھی اس سے زیادہ ہی کرتی ہیں۔ یار موڈ ہو تو تھوڑی بہت دعا کر دیں کہ ان کا جوڑوں والا مسئلہ بس اتنا ٹھیک ہو جائے کہ تھوڑا آرام سے چل پھر سکیں، باقی دوا دارو تو چلتے ہی رہتے ہیں۔
ظاہری بات ہے سب بچوں کی طرح اپنی بھی پوری زندگی کی ہر کہانی میں امی بھرپور طریقے سے موجود ہیں۔ لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ یہ ایک کالم بالکل پورا نہیں پڑے گا۔ قسط وار لکھا جائے تو پڑھنے والا پورا نہیں پڑھے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ اسی طرح کبھی کبھار ایک بابرکت تحریر آیا کرے گی، اسے پڑھ لیا کیجیے گا۔ اپنی اپنی امیوں کے لیے دعا کیجیے اور فقیر کے ماں باپ کو بھی یاد رکھیے۔ والسلام
میں کبھی ایک فرمانبردار بیٹا نہیں بن پایا۔ رج کے امی کو تنگ کیا۔ چھوٹا تھا تو امی سٹور میں بند کر دیتی تھیں، تھوڑا بڑا ہوا تو کئی بار فلائنگ چپل مقدر بنی اور بڑا ہوا تو رُلا بھی دیا کئی بار… تھوڑا اور بڑا ہوا تو سارے کس بل نکل گئے، امی بچپن میں اکثر ڈانٹنے کے بعد یہ ضرور کہتی تھیں کہ بیٹا خود کماؤ گے اور گزارہ ہو گا تو پتہ لگے گا کہ سیر میں کتنی پکتی ہیں۔ مجھ کو یقین ہے، سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ