غلام ہندوستان کی تاریخ میں نوآبادیاتی عہد ایکُ پرآشوب اور ہنگامہ خیز دور کا حامل رہا ہے۔ نوآبادکاروں/استعمار کاروں نے ہندوستان میں اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ’علم‘ کو طاقت کا ذریعہ بنایا۔یہ علم بظاہر تو سچائی کے دعوے کا حامل تھا لیکن انھوں نے اس کا حقیقی مقصد اپنی سیاسی طاقت کا حصول بنایا۔انھوں نے یہاں کے لوگوں، یہاں کی زبانوں، یہاں کی تاریخ و جغرافیے ، یہاں کے ادب وثقافت کا علم حاصل کیا ،تاکہ اس سارے علم کو اپنی سیاسی طاقت میں تبدیل کیا جاسکے۔ وہ اس مقصد میں خاطر خواہ کامیاب بھی ہوگئے۔
نو آبادیاتی عہد نے سماج کے دیگر شعبوں کی طرح اردو ادب پربھی گہرے اثرات مرتسم کئے ۔ اردو کی جدید اصناف ،جیسے افسانہ ،ناول، آزاد نظم ،تنقید ، انشائیہ، اور آپ بیتی و تاریخ نگاری اور تحقیق کے نئے طریقے نو آبادیاتی عہد میں متعارف ہوئے۔ اردو نے نئی ہیئتوں سے لے کر نئے اسالیب اور طریق کار تک یورپ سے مستعار لئے ۔ اردو ادب پر نوآبادیاتی اثرات مجموعی طور پر تین قسم کے تھے۔ کچھ تخلیق کاروں نے نو آبادکاروں اور ان کی تہذیب کا ُ پرشکوہ تصور پیش کیا۔کچھ نے استعماریت اور یورپی تہذیب دونوں کے خلاف مزاحمت کی۔بعض اردو ادیبوں نے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے مقامی اور یورپی تہذیب کے امتزاج کا تصور پیش کیا۔
استعمار کاروں کے’ مخصوص مقاصد‘ کو متعدد صاحبانِ علم و دانش نے تیسری دنیا پر واضح کردیا کہ استعماریت نے مشرق کو ہمیشہ تعصب کی نگاہ سے دیکھا۔انگریزی میں اس حوالے سے بہت پہلے کام شروع ہوا۔ ایڈ ورڈ سعید،فرانز فینن، ہومی بھابھا اورگیاتری چکرور تی سپیوک وغیرہ نے اپنی ناقدانہ بصیرت سے نوآبادکاروں کے مقاصد اور اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ایڈ ورڈ سعید نے انگریزی کے علاوہ عربی میں بھی لکھا۔’مابعد الاستعمار‘ انہی کی وضع کردہ اصطلاح ہے جو عربی ادب میں رائج ہوئی۔ جسے ہمارے ہاں ’مابعد نوآبادیات‘ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اردو میں قدرے بعد میں کام شروع ہوا۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر احمد سہیل وغیرہ کے ہاں ابتدائی نوعیت کے مضامین دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اردو دنیا میں بھی نوآبادکاروں کے مقاصد کو خالص علمی انداز میں باقاعدہ متعارف کرایا جائے۔ ڈاکٹر ناصرعباس نیرّ کو اس حوالے سے اختصاص حاصل ہے کہ انھوں نے جدید اردو تنقید کو مغربی سیاق میں دیکھنے کی کامیاب سعی کی۔اور نوآبادیات میں ہونے والے کثیر الجہت کام کو اردو میں دیکھنے کا خواب دیکھا جس کی اوّلین تعبیر2013ء میں سامنے آئی۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی اُن کی کتاب ’مابعدنوآبادیات: اردو کے تناظر میں‘ اسی سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔ جس میں انھوں نے استعمار کار اور استعمار زدوں کے درمیان ثقافتی رشتوں کو تلاش کیا تھا۔اور نوآبادیات کے اردو زبان و ادب پرہونے والے اثرات اور مضمرات کوتجزیاتی انداز میں بیان کیا تھا۔نیز انھوں نے استعماری بیانیے کی ماہیت ، اس کے اثرات اور حکمتِ عملی کو سمجھنے پر توجہ دی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مابعدنوآبادیاتی فکر کے نظری مباحث کو بھی علمی ڈسپلن کے تحت سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔ نیز اُسی کتاب کا ایک حصہ اطلاقی جہات کے حوالے سے بھی تھا جس میں انھوں نے گل کرسٹ کی لسانی خدمات، محمد حسین آزاد کے لسانی تصورات اور انجمن اشاعتِ علومِ مفیدہ پنجاب کو مابعد نوآبادیاتی تناظر میں دیکھا تھا۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے ، جس میں انھوں نے نوآبادیاتی اور پس نوآبادیاتی عہد کے تناظر میں اردو ادب کے مطالعات پیش کیے ہیں۔اوّل الذکر کتاب میں انھوں نے انجمن پنجاب تک اپنے مطالعات پیش کئے تھے۔ جبکہ ثانی الذکر کتاب میں اُس سے آگے اور بعد کے مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔کتاب کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے کہ اس میں اردو میں پہلی مرتبہ متبادل بیانیے کا تصور متعارف کروایا گیا ہے۔ مصنف کے مطابق، متبادل بیانیہ صرف اپنی زبان میں لکھا جاسکتا ہے ،اور یہ بیانیہ مزاحمتی بیانیے سے آگے کی چیز ہے!
’’جسے ہم متبادل بیانیہ کہتے ہیں ، وہ احتجاجی، مزاحمتی اور قومی بیانیوں ہی کے قبیل سے ہے، مگر کچھ باتوں میں یہ ان سے مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً یہ بات سب میں مشترک ہے کہ یہ سب بیانیے استعمار زدہ مصنفین پیش کرتے ہیں، مگر ایک بنیادی فرق بھی ہے: وہ یہ کہ احتجاجی و مزاحمتی بیانیے استعمار کار کے بیانیوں پر ’منحصر‘ ہوتے ہیں، جب کہ متبادل بیانیہ استعمار کار کے حاوی بیانیوں پر لازمی انحصار سے آزاد ہوا ہے۔ مزاحمتی بیانیہ اس مفہوم میں ’منحصر بیانیہ ‘ ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا، اس کی سمت ، اس کی حد استعمار کار کے بیانیوں سے طے ہوتی ہے۔‘‘(پیش لفظ)