اس کتاب کا ایک اہم مضمون ’برصغیر پر مسلم ثقافتی اثرات: نوآبادیاتی تناظر‘ ہے جس میں مصنف نے بتایا ہے کہ اگر ہندوستان کو انگریزوں نے تاراج کیا تھا تو ان سے قبل مسلم حکمران بھی ایسا کرچکے تھے۔ لیکن ان دونوں کے ’طریقہ واردات‘ میں کئی بنیادی فرق تھے: ایک فرق تو زمانے کا تھا۔ مسلمانوں کا زمانہ جاگیرداری کا زمانہ تھا ،جب کہ انگریز جب آئے تو صنعتی سرمایہ داریت کا آغاز ہوچکا تھا۔اس لیے دونوں کی اقدار،رویے ،پالیسیاں، ہندوستان کے معاشی استحصال کے طور طریقے الگ الگ تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان کو اپنا وطن نہیں بنایا، مگر سوائے چند ایک مسلمان حملہ آوروں کے (بالخصوص غزنوی، غوری، نادر شاہ ،احمد شاہ ابدالی)۔ اکثر ہندوستان ہی کی خاک میں پیوند ہوئے۔تاہم مغل حکمرانوں نے ہندوستان کو مغل امپائر بناتے ہوئے اس کے معاشی وسائل شاہی باغات، محلات، مقابر اور قلعوں کی تعمیر میں صرف کئے ۔اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم نہیں کئے ۔دوسری طرف انگریزوں نے ہندوستان کو باقاعدہ کالونی کا درجہ دیا اور اس پر مختلف النوع اثرات مرتب کیے۔انگریزوں نے نہ صرف ہندوستان کا سر مایہ باہر منتقل کیا بلکہ انھوں نے حاکم و محکوم کے درمیان بنیادی فرق اور درجہ بندی کو سفاکانہ انداز میں برقرار رکھا۔ مسلمانوں کے عہد کی سب سے اہم ثقافتی یادگار بھگتی تحریک ہے ، جب کہ انگریز عہد کی یادگار لسانی، مذہبی ،قومی فرقہ واریت ہے ،جس کی آگ میں اس وقت بھی پوراجنوبی ایشیا جل رہا ہے۔
یورپ/ مغرب نے مشرق کے حوالے سے ایک خاص نوعیت کا ذخیرۂ علم پیدا کیا تاکہ مشرق کی من چاہی تعبیر کی جاسکے۔ ڈاکٹر نیرّ کے مطابق مغرب نے مشرق کے لوک ادب اور ہندی کہاوتوں اور ضرب الامثال سے خاطر خواہ استفادہ کیااور اُس نے ہندوستان کے چند مخصوص علاقوں (بالخصوص یوپی)میں رائج کہاوتوں سے ’مشرقی ذہن‘ کو دریافت کیا۔ یورپی تعقل نے اس لوک ادب کو اشاعت کے جدید ذرائع کی مدد سے پھیلایا اور پھر ہندوستانیوں کو اس کے مطابق ڈھلنے پر مائل کیا۔ استعمار کی یہ کوشش اس بات پر منتج ہوئی کہ مشر ق اپنے ہی ادب سے اخذ کردہ شناخت کو قبول نہ کرنے میں اسے کوئی معقولیت نظر نہ آئی۔اوراس طرح نوآباد کار اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔
الطاف حسین حالی اپنی شاعری کو کذب و افترا قرار دیتے ہیں لیکن ایسا کذب جو حق نمائی کی سمت نمائی کرے۔ اُن کی شاعری کے حوالے سے بالعموم یہ رائے دی جاتی ہے کہ اُن کی شاعری قومی اور مقصدی شاعری کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ کلامِ حالی کا معتدبہ حصہ اس خیال کا عملی پیکر نظر آتا ہے لیکن شعرِ حالی میں بہت سا مواد ایسی شاعری کا بھی موجو دہے جس میں انھوں نے نوآبادکاروں کو شائستہ قوم قرار دیا۔ اپنی نظم ’حبِ وطن‘ اور اس قبیل کی دیگر نظموں میں حالی کا ’قومی شعور‘ جلوہ ریز ہے۔
کبھی تورانیوں نے گھر لوٹا
کبھی درانیوں نے زر لوٹا
کبھی نادر نے قتلِ عام کیا
کبھی محمود نے غلام کیا
سب سے آخر کو لے گئی بازی
ایک شائستہ قوم مغرب کی
یہ بھی تم پر خدا کا تھا انعام
کہ پڑا تم کو ایسی قوم سے کام
مغرب کو ’شائستہ قوم‘ اور ’خدا کا انعام‘ قرار دینے والے حالی کو1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کی طرف سے کھیلی گئی آگ اور خون کی ہولی کیوں بھول گئی۔ڈاکٹر نیرّ نے اس حوالے سے اپنے مضمون ’کچھ کذب و افترا ہے ، کچھ کذبِ حق نما ہے: حالی کی قومی شاعری کا نوآبادیاتی سیاق‘ میں حالی کی قومی شاعری پر کئی سوالات قائم کیے ہیں:
حالی کی قومی شاعری نے قومیت پرستی کے تصورات کے فروغ میں کیا کردار ادا کیا اور یہ تصورات کیا ان کے شعری تخیل کے پیداوار تھے یا کہیں سے مستعار تھے،یعنی کسی اندرونی تحریک کا نتیجہ تھے یا بیرونی دباؤ کے پیدا کردہ تھے؟(ص46 )
کیا حالی یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان کی انگریزی گورنمنٹ کی تعریف ایک ایسا کذب ہے جس میں قوم کی راہ نمائی کی صلاحیت ہے؟ (ص74 )
ڈاکٹر نیرّ کی اس کتاب کا ایک قابل ذکر حصہ اردو فکشن پر مشتمل ہے:منٹو کی کہانی کو انھوں نے ’حاشیے پر لکھا متن‘ کا نام دیا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’توبتہ النصوح‘ کا مطالعہ ’معنی واحد اور معنیِ اضافی کی کش مکش‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ نذیر احمد نے نوآبادیاتی مقاصد کے تحت یہ ناول لکھا تھا۔ڈاکٹر نیرّ نے اردو افسانے میں جادوئی حقیقت نگاری کے مباحث اپنے اُس وقیع مضمون میں اٹھائے ہیں جس کا عنوان ’پس نوآبادیاتی اردو فکشن: جادوئی حقیقت نگاری اور ’’غیر‘‘ کے تصور کی روشنی میں‘ ہے۔
کتاب کے ایک اہم مضمون’دہرے شعور کی کش مکش: سرسید کی جدیدیت اور اکبر کی ردّاستعماریت‘ میں بتایا ہے کہ سرسید کا رخ مستقبل کی طرف اور اکبر کی سمت ماضی کی جانب ہے۔ ہر دو حضرات اپنے اپنے نظامِ فکر میں آخر دم تک قائم رہے۔ اکبر ایک طرف تو انگریز سرکار کی نوکری کررہے تھے تو دوسری طرف مغرب اور سرسید کے سخت ترین ناقد بھی تھے۔ جبکہ سرسید مفا ہمت اور مصلحت کے پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ اور ’پیروئ مغربی‘ کے لیے آزاد اور حالی کو مشورے بھی دیے جارہے ہیں۔
میرا جی کے حوالے سے مصنف کا مضمون ’اُس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں: میرا جی کی نظم کا مطالعہ‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے بتایاہے کہ میرا جی کو صرف ابہام اور جنسیت تک محدود کرنا میرا جی پر بہت بڑا ظلم ہے۔اعجاز احمد نے میرا جی کو جنس زدہ کہا جبکہ انیس ناگی نے اُسے ایک بھٹکا ہوا شاعر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر نیرّ کے مطابق میرا جی کی نظم کا مطالعہ زیادہ تر اُن کی شخصیت کے تناظر میں کیا گیا ہے جو کسی طور درست نہیں مانا جاسکتا۔ کیوں کہ اس طرح میرا جی کی شخصیت تو نمایاں ہوجاتی ہے لیکن اُن کی نظم کہیں دور چلی جاتی ہے۔ حالاں کہ میرا جی کی نظم کی پرتیں تہہ در تہہ ہیں۔
’میرا جی کی نظم کا مطالعہ زیادہ تر میرا جی کی شخصیت کے سیاق میں کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف میرا جی کی نظم اور شخصیت ایک دوسرے کے مساوی تصور کی گئی ہیں بلکہ ان کی نظم اپنے وجود اور معنویت دونوں کے سلسلے میں ان کی شخصیت پر منحصر سمجھی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس طرزِ مطالعہ میں میرا جی کی شخصیت ان کی نظم سے طلوع نہیں ہوتی، ان کی شخصیت، ان کی نظم کی صورت ایک اپنا ہم سر اور ہم شکل وجود میں لاتی ہے۔‘‘ (ص235)
ڈاکٹر نیرّ نے شبلی نعمانی کی تنقید کا تجزیہ ’دوجذبیت‘ کے تناظر میں کیا ہے ۔ شبلی کا سرسید اور علی گڑھ تحریک سے گہرا تعلق بھی تھا اور وہ اس سے گریزاں بھی رہے۔ وہ سرسید پر تنقید بھی کرتے تھے اور تحسین بھی ۔وہ سرسید سے مرعوب بھی تھے اور گریز پائی کا رویہ بھی اُن کی طبع میں شامل تھا۔ یہ سب ان کی تنقید میں بھی آیا ہے، وہ یورپ کی علمی روایت کی تحسین کرتے اور اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں،لیکن ساتھ ہی مغربی علمی روایت کے ناقد بھی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ یہ دوجذبی رویہ خود مشرقی تنقید کے سلسلے میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر نیرّ نے شبلی کی نظری وعملی دونوں طرح کی تنقید میں اس دوجذبی رجحان کی موجودگی اور مضمرات کا جائزہ غیر معمولی ذہانت سے کیا ہے!
ایک بات ان سب کتاب کے مضامین میں مشترک محسوس ہوتی ہے کہ انھیں پڑھنے کے بعد آپ ان سب مصنفین (جنھیں اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے)کے بارے میں پہلے سے موجود آرا پر نظر ثانی پرخود کو مجبور پاتے ہیں۔وسیع مطالعے، گہرے تجزیے اور متاثر کن اسلوب نے کتاب میں شامل ہر مقالے کو چیزے دیگر بنادیا ہے۔
’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ نوآبادیاتی اور پس نوآبادیاتی عہد کے اردو ادب کی ایک اہم ترین دستاویز ہے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھا یا ہے جسے بعض ناقدین بھاری پتھر سمجھ کر اٹھا نہ سکے تو چوم کر چھوڑ دیا۔