محاورہ : لاٹھی مارے پانی نہیں ٹوٹتا
مفہوم : چھوٹی چھوٹی ناراضیوں سے ہمارے اِرد گرد موجودرشتے وقتی طور پر متاثر تو ہوتے ہیں لیکن مکمل طور پر ٹوٹتے نہیں۔
احمد کافی دیر سے سکول گیٹ پر رکشہ والے انکل کا انتظار کر رہا تھا۔چھٹی ہوئے آ دھ گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو گیا تھا لیکن انکل آج بھی ہمیشہ کی طرح ابھی تک سکول نہیں پہنچے تھے۔
’’آج تو باباسے سخت شکایت کروں گا کہ میں نے کل سے ان انکل کے ساتھ سکول سے گھر ہر گز نہیں جانا اوروہ اُس کیلئے دوسرے رکشہ والے انکل کا انتظام کریں۔‘‘وہ ذہن ہی ذہن میں یہ فیصلہ کر چکا تھا۔اچانک اسے دور سے رکشہ کے مخصوص ہارن کی آواز سنائی دی اور وہ سکول سے باہر آگیا۔انکل نے اُسے سکول سے لیکر گھر چھوڑ دیا تھا،لیکن اُس کا موڈ شدید آف تھا، اِس کا اندازہ اُس کی مما نے اُس کے گھر پہنچتے ہی اُس کے بجھے چہرے کو دیکھتے ہی لگالیا تھا۔
’’کیا ہوا احمد ،سکول میں کچھ ہوا کیابیٹا؟‘‘مما نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس سے پوچھاتو وہ جھنجھلائے ہوئے انداز سے گویا ہوا۔’’ہاں نہیں تو کیا مما،یہ آخر رکشہ والے انکل کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟کیوں اتنی دیر سے مجھے سکول لینے آتے ہیں،سچ میں پورا سکول خالی ہو جاتا ہے تب کہیں جاکر وہ مجھے لینے آتے ہیں،کل سے میں ہر گز اُن کے ساتھ نہیں آؤں گا،یا تو میرے لئے دوسرے رکشہ کا انتظام کر دیں یا پھربابا سے کہیں وہ خود مجھے لینے کیلئے سکول آئیں‘‘وہ براسا منہ بناتے ہوئے ایک ہی سانس میں اپنا مسئلہ اور خفگی دونوں کو ہی واضح کر گیا۔
دوسری جانب اُس کی مما اُس کی اِس بات پر اُسے بس ایک ٹک دیکھے جا رہی تھیں۔وہ جانتی تھیں احمد نے اس معاملہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے تب ہی اس قدر غصہ میں ہے۔اس لمحہ انہوں نے مزید کچھ بولنے سے خاموش رہنے کو ہی بہتر جانا اور احمد کوتسلی دینے کے انداز میں اپنے سینے سے لگا لیا۔
شام کو غیاث الدین(احمد کے بابا)آفس سے گھر آئے تو احمد کو خلاف توقع بستر پر دراز دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئے۔چونکہ وہ معاملہ سے لاعلم تھے اِس لئے اُن کی پریشانی بجا تھی۔دوسرا احمد ہمیشہ اُن بچوں میں شمار کیا جاتا تھاجو اپنے کھلنڈرے پن سے ہر وقت دوسروں کو محظوظ کئے رکھتے ہیں۔بلا کا ذہین احمد بڑوں کی عزت کرنا خوب جانتا تھا کہ غیاث الدین اور ان کی بیگم نے اُس کی تربیت میں کسی قسم کی کوئی کسر جونہیں چھوڑی تھی اور اِس کا پھل اُنہیں اکثر احمد کے مثبت رویے کی صورت میں ملتا ہی رہتا تھا۔وہ جب بھی گھر آتے احمد اُن کا منتظر ہوتااور اِنہیں دیکھتے ہی چہرے پر معصومانہ مسکراہٹ بکھیرتا اُن کے گلے لگ جاتا۔اور وہ جو دن بھر کی جس ذہنی و جسمانی تھکن کا شکار ہوتے وہ بیٹے کے اس نہال ہوتے عمل پرفوراً ہی اُڑن چھو ہو جاتی۔مگر آج ایسا کچھ نہیں ہوا تھااس لئے اُن کی پریشانی بجا تھی۔غزالہ(اُن کی بیگم)اُن کے ہاتھ سے آفس بیگ لے کر ایک طرف رکھنے کے بعد اُن کے شانوں سے کوٹ اتارنے لگیں تو غیاث الدین نے احمد کے حوالہ سے اُن سے سوال پوچھ ہی لیا۔غزالہ نے شوہر کوتمام صورت حال سے آگاہ کر دیا۔
’’ارے بھئی بس اتنی سی بات پر اِس قدر موڈ آف‘‘لگتا تھاغیاث الدین کیلئے بیگم کی کہی بات عام سے مسئلہ کے سوا کچھ نہیں تھی ۔
’’غیاث آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ بظاہر یہ عام سی بات ہے،لیکن میں اس عام سی بات پر اس لئے پریشان ہوں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب احمدنے نہ صرف کسی بات کو اتنی سنجیدگی سے لیا ہیبلکہ اس پر اپنا اٹل فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیا ہے۔احمد کا یہ عمل کسی بھی طور مثبت رویے کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا،وہ ابھی چھوٹا ہے ،اسے ہر گز ہر گز اس رویے کو نہیں اپنانا چاہئے تھا‘‘غزالہ بیگم نے اس مسئلہ پر اپنی سوچ شوہر کے سامنے رکھ دی تھی۔
’’تم بھی کمال کرتی ہو غزالہ،تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ تمہارا بیٹا اب اپنی ذات کے حوالہ سے اچھے اور برے فیصلے کرنے کا آغاز کر چکا ہے،میری نظر میں تو یہ احمد کا لائق تحسین رویہ ہے۔‘‘غیاث الدین اب اپنی سوچ بیان کر رہے تھے۔
’’لائق تحسین عمل۔۔۔‘‘غزالہ نے شوہر کی کہی بات کو حیرت آمیز لہجے میں دہرایا اور پھر بولیں
’’غیاث یہ عمل کسی بھی طور لائق تحسین قرار نہیں دیا جا سکتاکہ ایک بچہ جس نے کچھ دن پہلے ہی اپنی عمر کی نویں سیڑھی پر قدم رکھا ہو،وہ بھلا کیسے اچھے اور برے کی تمیز کر سکتا ہے،میری نظر میں احمد کا یہ عمل خود سری اور بغاوت کی پہلی سیڑھی ہے ، آج اگر ہم نے اُسے یہ نہ سمجھایا کہ جس رکشہ والے انکل سے وہ صرف اس بات پر اتنا نالاں ہے کہ وہ اُسے دیر سے گھر پہنچاتا ہے،ہو سکتا ہے اِس سب کے پیچھے اُن کی اپنی بھی کوئی مجبوری یا پریشانی ہو،اور ہم انجانے میں اس پریشانی کو جانے بنا انہیں اگلے روز نہ آنے کا کہہ دیں تو یہ انہیں بھی تو برا لگ سکتا ہے۔کیونکہ وہ انکل پچھلے 4برسوں سے اُسے سکول سے وقت پر ہی تو لا رہے تھے اور آج تک انہوں نے کبھی بلا عذر چھٹی تک نہیں کی تھی،پھر ایسا آخر کیا تھا جس کی سبب وہ پچھلے ایک ماہ سے تاخیر کا شکار ہو رہے تھے۔غیاث ہمیں احمد کو رکشہ والے انکل کے منفی رویے سے زیادہ مثبت رویے سے آگاہ کرنا ہوگاتاکہ وہ بھی ہمیشہ مثبت فیصلے کرنے کو ہی ترجیح دے‘‘
غزالہ کی بات سن کر غیاث الدین نے اپنے سر کو جنبش دی جیسے واقعی اُن کی بیگم کی بات میں دم تھا۔اب وہ بھی اپنی بیگم کے ہم خیال ہو گئے تھے،سو وہ دونوں احمد کے بستر کے پاس پہنچ کر نہایت شفقت سے اُسے جگانے لگے۔
احمدجاگ گیا تھا لیکن دوپہر والی بات شاید اس کے دماغ میں اب تک رچی تھی،اس لئے اس کے آثار اب بھی اس کے اُداس چہرے پر موجود تھے۔
’’آپ کی مما نے مجھے ساری بات بتا دی ہے بیٹا۔۔۔آپ کی پریشانی بجا ہے واقعی تمام دن سکول میں پڑھتے رہنے کے بعد اگر گھر تاخیر سے پہنچا جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔لیکن بیٹا ہو سکتا ہے رکشہ والے انکل کسی وجہ کے سبب سکول دیر سے پہنچ رہے ہوں،ہمارے لئے پہلے اس وجہ کا جاننا بھی تو بہت ضروری ہے‘‘۔
’’لیکن بابا ،آخر کوئی حد ہوتی ہے،میں نے انکل کو ایک نہیں، دو نہیں بلکہ کئی بار سکول وقت پر پہنچنے کا کہا ہے،لیکن وہ وعدہ کرنے کے باوجود وقت پر سکول نہیں آرہے ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کہ اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘احمد کی خفگی پوری طرح سے اس کے مزاج پر حاوی تھی۔
’’اچھا تو یہ بتاؤ انکل نے آپ کو تاخیر سے آنے کی کوئی معقول وجہ بھی بتائی؟‘‘غیاث الدین اس سے سوال کر رہے تھے۔
’’نہیں بابا انہوں نے مجھے کوئی وجہ نہیں بتائی اور نہ ہی میں نے اُن سے دریافت کی‘‘احمد ہمیشہ سچ بولتا تھااور اس لمحہ بھی وہ سچ بول رہا تھا۔
’’یہ ہوئی ناں بات،پھر کیوں نا رکشہ والے انکل سے اس حوالہ سے فوری طور پر فون پر بات کی جائے،اگر انہوں نے سکول تاخیر سے پہنچنے کی کوئی معقول وجہ نہ بتائی تو میرا آپ سے وعدہ کہ آپ کیلئے کل ہی دوسرے رکشہ والے انکل کا انتظام کر دوں گا۔‘‘غیاث الدین اسے اپنے اور غزالہ کے ذہن میں موجود منصوبے کے تحت ٹریک پر لا رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے بابا،جیسے آپ کی مرضی‘‘احمد خود سر بچہ نہیں تھااس لئے بہت آسانی سے وہ اپنے مما اور باباکی بات مان گیا تھا۔غیاث الدین اور غزالہ دونوں ہی کے چہرے احمد کی بات سن کر فخریہ مسکراہٹ سے سجے تھے۔
’’بابا اجمل میں غیاث الدین بول رہا ہوں احمد کا بابا‘‘غیاث الدین نے موبائل کا سپیکر کھول کر رکشہ والے انکل کوکال ملا دی تھی اور اب اُن کا حال چال پوچھ رہے تھے۔
’’بابا آپ سے ایک گلہ ہے کہ آپ کئی دنوں سے احمد کو سکول سے گھر تاخیر سے پہنچارہے ہیں، اس پر احمد آپ سے سخت خفا ہے،آپ بتائیں گے کہ آپ جیسا ذمہ دار شخص ایسا کیوں کر رہا ہے؟‘‘غیاث الدین اب اصل مدعا اُن کے گوش گزار کر رہے تھے۔
’’غیاث صاحب!آپ نے پوچھا ہے اس لئے بتا رہا ہوں تاکہ آپ کے ذہن میں میری شخصیت کے حوالہ سے کوئی منفی بات جگہ نہ بنا لے،بات دراصل یہ ہے کہ میں ایک غریب آدمی ہوں ،میری بیوی کی ایک ماہ قبل سیڑھیوں سے گر کر ٹانگ ٹوٹ گئی تھی،جیسے تیسے اچھے ہسپتال سے اس کی بندھائی تو کروا لی،لیکن روزانہ چیک اپ کیلئے میری جیب نے اجازت نہ دی تو ایک عزیز نے سوشل سکیورٹی ہسپتال کا کارڈ بنوا دیا، اب میں روزانہ چیک اپ کروانے بیوی کو اسی ہسپتال لے جاتا ہوں۔بہت کوشش کرتا ہوں کہ جلدی ہسپتال سے فارغ ہو جاؤں لیکن بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے وہیں لیٹ ہو جاتا ہوں اور دیر سے سکول پہنچ پاتا ہوں،لیکن اللہ کا شکر ہے اب بس 4سے5دنوں کی بات رہ گئی ہے ،زخم اب ٹھیک ہو گیا ہے اور اِس کے بعد ہسپتال جانے کی نوبت نہیں آئے گی،پھر میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں سکول وقت پر پہنچ کر احمد بیٹا کو لے لیا کروں گا۔‘‘رکشہ والے انکل نے ساری بات کھول دی تھی۔
غیاث الدین اور غزالہ کے ساتھ ساتھ احمد نے بھی یہ سب سنا تھا۔فون بند ہو چکا تھا۔غیاث الدین اور غزالہ رکشہ والے انکل کی 4،5دن والی بات پر احمد کے ردعمل کا سوچ رہے تھے اور احمد خاموش بیٹھا اپنے ذہن میں جو سوچ رہا تھا وہ اب اپنے مما اور بابا کے گوش گزار کر رہا تھا۔
’’سوری بابا،سوری مما۔۔۔میں کتنا گندہ بچہ ہوں ناں کہ رکشہ والے انکل کی مجبوری جانے بنا اُن سے ناراض ہو گیااور آپ لوگوں کو بھی ناحق پریشان کیا ،میں کل رکشہ والے انکل سے بھی معافی مانگوں گا۔کیا ہوا اگر وہ چند دن اور تاخیر سے مجھے لینے سکول آئے،آخر کو وہ مجھے بحفاظت سکول سے گھر بھی تو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘وہ شرمندہ شرمندہ سا دکھائی دے رہا تھا۔
غیاث الدین اور غزالہ کیلئے احمد کے منہ سے نکلے یہ الفاظ انہیں طمانیت کی اس وادی میں لے گئے تھے جہاں وہ فخر سے اپنے بیٹے کی اعلیٰ سوچ کی ساتھ کھڑے تھے۔انہوں نے احمد کو گلے سے لگا کر بس اتنا ہی کہا تھاکہ بیٹا ’’لاٹھی مارے پانی نہیں ٹوٹتا‘‘آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو اب آپ اپنے اچھے رویہ سے اپنے اور رکشہ والے انکل کے رشتہ کو اور مضبوط کیجئے گا ۔