پاکستان میں حالیہ برسوں میں معاشی حالات نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے، اور ان حالات کا خمیازہ صرف عوام ہی نہیں بلکہ ملک کی معیشت بھی بھگت رہی ہے۔ ایک طرف جہاں حکومتی نمائندے اور منتخب اراکین اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف عوام کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ میں 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ تک کا اضافہ کیا گیا، جبکہ وزیروں کی تنخواہ 9 لاکھ تک پہنچا دی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار حکومتی خوشحالی کی علامت ہیں، لیکن عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، اور عوام ہر روز مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔ بجلی، گیس، اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ گھی کی قیمت میں 100 روپے فی کلو کا اضافہ ہو چکا ہے، آٹے کی قیمت 150 روپے فی کلو تک بڑھ گئی ہے، اور دالوں کی قیمتیں بھی 80 سے 100 روپے فی کلو تک بڑھ چکی ہیں۔ اگر حکومت معاشی استحکام کے دعوے کرتی ہے، تو ان قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس دعوے کی حقیقت پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں اشیاء کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ جواب سادہ ہے: "مڈل مین” اور "کرپشن” کی بدولت۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں کہا کہ معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے اور مہنگائی کم ہو چکی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کو اس استحکام کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان نے عوام کی قوت خرید کو کم کر دیا ہے، اور ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت کے دعوے اور عوام کی حقیقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گھی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور دالوں کی قیمتوں میں اتنا بڑا فرق، حکومت کے دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
ایک طرف جہاں عوام کو سستے غذائی اجزاء تک رسائی نہیں ہے، وہیں دوسری طرف حکومتی اہلکار اور اراکین اپنی مراعات اور تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں۔
اس کہانی میں جو تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں نے عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے، لیکن حکومتی نمائندے خود کو اپنی مراعات میں خوشحال رکھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافہ اور وزیروں کی تنخواہیں 9 لاکھ تک پہنچا دینا، جب کہ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، ایک سنگین تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومتی اقدامات صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ہیں، اور عوام کے لیے کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ عالمی سطح پر قیمتیں کم ہوئی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی قیمتوں میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔ دالوں اور گھی کی قیمتوں میں اضافہ، آٹے کی قیمتوں میں بڑھوتری اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ حکومتی دعوے حقیقت سے بہت دور ہیں۔ اگر معیشت میں استحکام آیا ہے تو عوام کے لیے وہ کیوں محسوس نہیں ہو رہا؟
یہ تضاد صرف حکومتی پالیسیوں میں نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی سوچ میں بھی موجود ہے۔ یہ سوچ کہ عوام کے مسائل کے حل کے بجائے صرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنانا، ایک سنگین غلط فہمی ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک عوام کی مشکلات کا حل نہیں نکلتا، تب تک معیشت میں استحکام ممکن نہیں۔ حکومتی نمائندے جب تک عوام کی مشکلات کو نظرانداز کریں گے، تب تک معاشی استحکام صرف ایک خواب رہے گا۔
پاکستان کا حکومتی طبقہ اگر اپنے عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، تو یہ نا صرف ایک معیشتی بحران بن جائے گا، بلکہ عوامی ردعمل بھی شدید ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں میں توازن لائے، عوام کے لیے ضروری اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں رکھے، اور حقیقی معاشی استحکام کے لیے عملی اقدامات کرے۔ عوام کی زندگیوں میں بہتری کے بغیر معاشی استحکام کا دعویٰ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔
فیس بک کمینٹ