یوں لگتا ہے کہ سیاسی مذاکرات بھی کوئی بھوت ہے ۔ ہر سیاست دان ان میں دلچسپی لینے کے باوجود پہلا قدم اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ اب قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اعلان کیا ہے کہ اسپیکر کے طور پر وہ حکومتی پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کے بھی نمائیندے ہیں۔ ان کا گھر چوبیس گھنٹے سب کے لیے کھلا ہے۔ جو بھی کسی قومی نوعیت کے مسئلہ پر بات کرنا چاہتا ہے، وہ کسی بھی وقت ان کے گھر آسکتا ہے۔
اس سے پہلے قومی اسمبلی میں تقریریں کرتے ہوئے تحریک انصاف کے نمائیندوں اور حکومتی وزرا نے بات چیت ہی کو مسئلہ کا حل قرار دیا۔ لیکن کوئی فریق بھی یہ واضح نہیں کرتا کہ اس طرف کیسے قدم آگے بڑھایا جائے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناللہ نے کہا تھا کہ’ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے بغیر نظام آگے نہیں چل سکتا۔ مسائل کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ سیاسی لوگ مل بیٹھ کر جمہوری انداز میں انہیں حل کریں‘۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا تھا کہ حکومت اپنی انا کے خول سے باہر نکلے اور مذاکرات کے لئے ٹرمز آف ریفرنس طے کیے جائیں کیوں کہ ان کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔
’پہلے آپ ‘ کا یہ سلسلہ 26 نومبر کو اسلام آباد کی طرف تحریک انصاف کے ناکام مارچ کے بعد زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ عمران خان پہلے تو یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ صرف مجاز اتھارٹی سے ہی بات کریں گے کیوں کہ موجودہ حکومت تو کٹھ پتلی ہے۔ تاہم اب انہوں نے عمر ایوب کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں بات چیت کا اختیار دیا ۔ البتہ جب بیرسٹر گوہر علی اور شبلی فراز نے بالترتیب قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مذاکرات کے ذریعے سیاسی تعطل دور کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو اگلے ہی روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف مطالبات پورے ہونے تک مذاکرات میں شریک نہیں ہوسکتی۔ اس بیان کے بعد تحریک انصاف کے لیڈر ایک بار پھر بے یقینی کا شکار ہوگئے اور بیانات میں پارٹی کے بانی کو یہ یقین دلانے کی دوڑ دکھائی دینے لگی کہ وہ بس ان کے وفادار ہیں۔ مذاکرات کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔
جیسا کہ شیر افضل مروت نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ ملکی میڈیا تو عمومی طور سے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت پر زور دے رہا ہے۔ عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ اگر حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت بات چیت کی میز پر بیٹھے گی تو اس سے امکانات پیدا ہوں گے۔ یا کم از کم بداعتمادی کی موجودہ فضا ختم ہوگی۔ تاہم یہ نقطہ نظر ایک وسیع تر تناظر میں تو قابل فہم ہے لیکن سیاسی چپقلش کی موجودہ صورت حال کی بنیاد بداعتمادی کے علاوہ ایک دوسرے کے حق حکمرانی کے بارے میں شبہات ہیں۔ یعنی شہباز شریف خود کو اکثریتی اتحاد کا لیڈر سمجھتے ہوئے ملک پر حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔جبکہ عمران خان اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے اس لیے ان کے موجودہ نتائج کو نہیں مانا جاسکتا۔ البتہ حکومت یا ’حکومت چلانے والے خفیہ ہاتھ‘ اگر ان نتائج میں سے کوئی ایسا نتیجہ نکال لیں کہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع مل جائے تو ان انتخابی نتائج کو مانا جاسکتا ہے ۔ بصورت دیگر احتجاج کا کوئی نہ کوئی نیا طریقہ تلاش کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
مذاکرات کے لیے تحریک انصاف کے دو بنیادی مطالبات عمران خان کی رہائی (خود کو جمہوری و عوامی ثابت کرنے کے لیے اب اس مطالبے کو پارٹی کے تمام کارکنوں کی رہائی کا نام دیا جاتا ہے) اور حکومت میں واپسی ہے۔ عمران خان چونکہ 2018 میں جادو کی چھڑی کے کرشمے کی وجہ سے اچانک وزارت عظمی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ جو کام ایک بار ہوسکتا ہے ، وہ دوبارہ کیوں نہیں ہوسکتا۔ یہ خواہش یا سیاسی مطالبہ بالک ہٹ کے مترادف ہے اور سیاسی عمل میں بچوں جیسی ضد سے کام نہیں چلتا بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ (ن) یہ دونوں ہی بات چیت کے لیے درکار اس بنیاد اصول کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دونوں پبلک پلیٹ فارم پر بیان کی گئی اپنی پوزیشن سے سر مو انحراف پر آمادہ نہیں ہیں۔ لیکن ا س کے باوجود مذاکرات کا راگ الاپا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ فریق ثانی مذاکرات سے بھاگ رہا ہے۔
اب اسپیکر ایاز صادق نے قومی مسائل پر سہولت کاری کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے گھر کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے ہیں۔ اپوزیشن یا حکومت میں سے جو، جب چاہے آکر ان سے بات کرسکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کا بیان دلچسپ سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے اہم ترین ایوان کے سربراہ ہیں۔ اگر وہ ملک میں سیاسی بحران ختم کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں چوبیس گھنٹے اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھ کر کسی مہربان کے آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے چیمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائیندوں کو مدعو کرکے ان سے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ بعض معاملات پر اتفاق کرلیا جائے۔ یہ درست ہے کہ ایاز صادق کسی کو کوئی بات طے کرنے یا ماننے پر مجبور نہیں کرسکتے لیکن ان کے پاس ایسی سیاسی و پارلیمانی پوزیشن ضرور ہے کہ وہ فریقین کو ایک جگہ بٹھا کر بات چیت کے لیے بنیاد پر متفق ہونے پر آمادہ ہونے کا موقع دیں۔ لیکن انہوں نے بھی مذاکرات کی حمایت میں ویسے ہی ویڈیو پیغام میں خدمات پیش کی ہیں جیسے رانا ثنا اللہ نے قومی اسمبلی میں دعویٰ کیا ہے کہ ’ہاں بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔ آؤ مذاکرات کریں‘۔ ایسے اعلان اور دعوے سنجیدہ سیاسی مکالمہ شروع کرنے اور مسائل حل کرنے کی طرف پیش قدمی کا سبب نہیں بن سکتے۔
شہباز شریف کی حکومت بوجوہ خود کو مضبوط پوزیشن میں سمجھتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کی پوزیشن کمزور ہے۔ اس کی قیادت جیلوں میں بند ہے اور ان پر 9 مئی کے بعد اب 26 نومبر کی توڑ پھوڑ اور تخریب کاری میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ خاص طور سے اس روز ایک گاڑی نے تین رینجرز کو روند کر ہلاک کردیا تھا۔ حکومت اس سانحہ کو اپوزیشن کو دبانے اور اس کے لیڈروں کو سنگین الزامات میں سزائیں دلانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات کی ۔ اس میٹنگ کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم اور آرمی چیف نے احتجاج کے نام پر بدامنی پیدا کرنے کے ہر اقدام کو سختی سے کچلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ حالانکہ ایک ایسے وقت جب ملک میں مذاکرات کو آگے بڑھنے کے واحد راستے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو، اس قسم کے اعلانات ضروری نہیں ہوتے بلکہ ماحول کی تندی و تلخی کم کرنے کے لیے یا تو خاموشی اختیار کی جاتی ہے یا خوشگوار اشارے دیے جاتے ہیں۔
ایک طرف اگر حکومت اپنی پوزیشن مضبوط سمجھ کر تحریک انصاف سے مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے، اسے پچھاڑنے کی منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف عمران خان کو یقین ہے کہ 26 نومبر کے احتجاج میں گو کہ بظاہر تحریک انصاف کو ناکامی کا سامناکرنا پڑا ہے لیکن اس سے پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس روز رونما ہونے والے واقعات سے حکومتی جبر اور نہتے لوگوں کے خلاف تشدد پر دنیا بھر میں پاکستانی حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ عمران خان کی حکمت عملی یہی لگتی ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو متحرک رکھا جائے اور بے بنیاد خبروں کے ذریعے ہیجان پیدا کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی مغربی ممالک میں اپنے حامیوں اور لابیوں کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے اور انہیں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی بیان دینے یا اسلام آباد پر اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ نام نہاد سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا نعرہ بھی اسی مقصد سے لگایا گیا تھا۔ گو کہ فی الوقت عمران خان نے اسے ’ملتوی‘ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے آج اڈیالہ جیل میں بھائی سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کی کال پر بیرون ملک سے ترسیلات زر نصف ہوجائیں گی۔ اس لیے حکومت کے پاس تحریک انصاف کے مطالبات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ورنہ ملکی معیشت تباہ ہوجائے گی۔
یہ حساب کتاب کرنے کی بجائے کہ عمران خان کے اعلان پر ترسیلات زر میں کتنی کمی واقع ہوگی، یہ سوچنا چاہئے کہ اس قدام سے ملک کو نقصان پہنچا کر تحریک انصاف کو کیا حاصل ہوگا؟ اگر علیمہ خان کی باتوں کو ہی سچ مان لیا جائے تو ملک کا نقصان ہونے سے پہلے موجودہ خود سر حکومت عمران خان کو ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات میں ملوث کرسکتی ہے۔ سیاسی مفاہمت کے لئے سول نافرمانی یا دھمکیوں کی زبان کارآمد نہیں ہوسکتی۔ فریقین کو اس وقت ایک دوسرے سے ڈرنے یا فریق ثانی کو خوفزدہ کرنے کی بجائے عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ عمران خان مذاکرات کو سنجیدہ موقع دینے کا عزم ظاہر کریں اور ان کی کامیابی کے لیے خود اپنی رہائی کو شرط کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ بلکہ وہ اپنی رہائی عدالتی نظام میں اپنا مقدمہ جیت کر حاصل کریں تاکہ وہ قانونی طور سے بھی بے قصور ثابت ہوجائیں۔ اور ان کی رہائی کو سیاسی رعایت کا نام نہ دیا جائے۔ تحریک انصاف اس کی بجائے پارلیمنٹ میں سہولتوں اور موجودہ بداعتمادی کے خاتمہ کے لیے قبل از وقت انتخابات کے کسی میکنزم پر بات کرے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اسی وقت بات چیت کی طرف بڑھ سکتی ہیں جب وہ ایک دوسرے کو سیاسی مد مقابل سمجھیں گی۔ اگر ایک طرف سے چور لٹیرے اور دوسری طرف سے انتشار پسند گروہ قرار دینے کے نعرے لگائے جاتے رہیں گے تو مذاکرات کو کسی غیر مرئی بھوت ہی کی حیثیت حاصل رہے گی۔ سیاسی لیڈر تو شاید اس مہیب سائے سے محفوظ رہے لیکن ملکی تقدیر مسلسل زبوں حالی کا شکار رہے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ