ڈھائی برس تک سیاسی مخالفین کو احتساب کا نشانہ بنائے رکھنے سے اپوزیشن رہنماؤں کو لوہے کے چنے چبوائے تو لیکن کچھ ہاتھ نہ لگنے سے ہمارے محتسب اعظم عمران خان سٹپٹا کے رہ گئے۔
ماضی کی کرپشن کے سایوں کا تعاقب کرتے کرتے بالآخر وہ کرپشن کے دیوہیکل مافیاز سے جا ٹکرائے ہیں۔ یہ مافیا ہر شعبہ معیشت سے ہر محکمہ ریاست تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اور آئینی اور قانونی دائروں سے ماورا اور آزا د منڈی کے کلیے قاعدوں سے قطع نظر اندھی لوٹ کھسوٹ، ناجائز دھندوں، ہیرا پھیری، فراڈ، ٹیکس چوری، غبن، سٹے بازی۔
کالے دھن کی متوازی معیشت اور پیداواری کردار کے بجائے کرایہ داری، مفت خوری میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ جب کہ قانونی معیشت ہے کہ آئے روز زوال پذیر ہے۔ پہلے پہل جب ادویات کی قیمتیں کئی گنا چڑھیں تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کے مشیر صحت خود مبینہ طور پر اس میں ملوث پائے گئے۔ پھر گندم کا بحران پیدا ہوا تو خود خان صاحب کو مشیر خاص اور سیکرٹری کو گھر بھیجنا پڑا۔
پھر چینی کا بحران آیا تو پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل اور فنانسر جہانگیر ترین اور کابینہ کے رکن مخدوم خسرو بختیار اور ان کے بھائی سرغنہ پائے گئے۔ ناکارہ گورننس کا طوطی بولا بھی تو آئی ایم ا یف کے ساتھ ایسی خوفناک شرائط پر معاہدہ بحال ہوا جس کی کہ وزیراعظم کو یا تو خبر نہ تھی یا پھران کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔
اب کورونا کی تیسری لہر کی آڑ میں کچھ رعایت ملے گی بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف۔ تب تک مہنگائی کا طوفان سر پر سے گزر چکا ہو گا۔ اور یہ 18 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔
اوپر سے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس، ٹیکس شرح میں اضافے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں5 روپے اضافے اور تیل گیس کی بڑھتی قیمتوں کے ہاتھوں حشر بپا ہونے کو ہے۔
پی ڈی ایم کے تتر بتر ہونے سے عمران خان حکومت جونہی سیاسی دبائو سے نکلی تو خان صاحب پھر سے خم ٹھونک کر میدان کارزار میں اترے ہیں۔ اس بار مقابلہ واقعی کسی انقلابی یدھ سے کم نہیں۔
شوگر مافیا کے ساتھ بڑا میچ پڑ گیا ہے۔ اس مافیا میں کون سا بڑا خاندان ہے جو شامل نہیں۔ نشانہ بننے والوں میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، ان کے بھائی، شہباز شریف ،مونس الٰہی اور سندھ کا بڑا اومنی گروپ بھی ہے۔ جس کا تعلق آصف زرداری سے جوڑا جاتا ہے۔ شوگر مافیا ہو یا تیل و گیس مافیا، آٹا مافیا ہو یا گھی مافیا۔ پاور مافیا ہو یا تمباکو مافیا، زمیندار مافیا ہو یا اسٹیٹ بزنس کی مافیا، یہ سب مافیاز ہر سیاسی جماعت میں ہیں اور ریاست کے محکموں کو شراکت دار بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب نے اپنے اپنے کارٹلز اور اجارہ دارانہ جھتہ بندیاں بنائی ہوئی ہیں۔
پھر ریاستی اداروں اور محکموں کے اپنے اپنے اداراتی کٹھ بندھن ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان مافیائوں کا وفاق ہے جو وطن عزیز اور اس کے محنت کش عوام کو نچوڑنے لگا ہے۔ یہ سیدھی سادی سرمایہ داری نہیں جو فقط قوت محنت کی زائد قدر پر پھلتی پھولتی ہے بلکہ یہ ایک مفت خور، کرایہ خور اور فراڈ سرمایہ داری ہے جو ملک کو عالمی دست نگر میں دھکیل کر گویا اس کی خود مختاری کا سودا کر چکی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دو نمبر معاشی ڈھانچے، مفت خور طفیلی ریاست کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں۔ اور اس کا جہنم بھرتے ہیں۔ اس بندوبست کو ہی اسٹیٹس کو کہا جاتا ہے۔ جب عمران خان نے اسٹیٹس کو توڑنے کا نعرہ لگایا تو دراصل اس کا نشانہ پرانے سیاسی ورثہ کی دو بڑی جماعتوں کی اجارہ داری تھی۔
دو پرانی جماعتوں کی اجارہ داری تو انہوںنے توڑ دی لیکن اسٹیٹس کو توڑنے کی جانب وہ اب آئے ہیں۔ یا پھر حالات نے انہیں اسٹیٹس کو مافیاز کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ ان کی پاپولسٹ لفاظی حقیقی لڑائی میں بدلتی جا رہی ہے۔ لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ وہ تو خود ریاستی وائسرائی نوکر شاہانہ اسٹیٹس کو کا پر تو ہیں۔ لیکن ریاستی ڈھانچے بھی کنگالی کے ہاتھوں تنگ آتے جا رہے ہیں۔ تووہ یقیناً مافیاز کا گلہ دبانے پر مائل ہوں گےکہ کاروبار حکمرانی جاری رہے۔ یہ زندگی اور موت کی کشمکش ہے اور استحصالی نظام کی اندرونی کشمکش۔ جس سے عمران خان فائدہ اٹھا کر مافیاز کا گلا دبوچ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اکیلا چنا کیا بھاڑجھونکے گا؟ عمران خان کی اپنی جماعت ، کابینہ اور اتحادیوں میں بڑے بڑے مگر مچھ بیٹھے ہیں۔
اپنے ہی مگر مچھوں پر وہ ہاتھ ڈال کر اعلیٰ اخلاقی سیڑھی پر تو چڑھ گئے ہیں۔ لیکن متاثرین ان کے خلاف ایک غیر مقدس محاذ بنانے جا رہے ہیں، ان کے خلاف اترے بھی ہیں تو ان کے غیر رسمی ڈپٹی پرائم منسٹر جہانگیر ترین۔ تحریک انصاف میں اندرونی خلفشار پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہا ہے۔ آئندہ دنوں میں دیکھئے کتنا بڑا محاذ کھڑا ہونے جا رہا ہے؟ کیا کپتان بھیگی بلی بن کر ان کے آگے لیٹ جائے گا یا پھر اسٹیٹس کو توڑنے کی راہ پر چل نکلے گا۔ کیا وہ رسک لے گا کہ حکومت تو ہو نہیں رہی، جاتی ہے تو جائے اور وہ مسیحا بننے نکل کھڑا ہو۔ شاید تحریک انصاف کی یوتھ اس انتظار میں ہے۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اسٹیٹس کو کی استحصالی قوتوں کو شکست کوئی ایسی پارٹی نہیں دے سکتی جو خود دراصل اسٹیٹس کو کی سیاست کی باج گزارہو۔ اس کے لیے محنت کش عوام کی تحریک اور ایک انقلابی پارٹی چاہیے جو کہ ہے نہیں۔ تو پھر اس اتھل پتھل کاکیانتیجہ برآمد ہو گا۔
وہی جو ادھورے انقلابوں کا ہوتا ہے۔ قدم بڑھائو عمران خان اسٹیٹس کو ـ ـ ـ کی دیوار کو ایک دھکا اور دو۔
پنجابی ضرب المثل ہے۔ راہ پیا جانے، واہ پیا جانے
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )