وزیر اعظم کے طور پر قوم سے آخری خطاب میں عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ ان میں ہار برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ اپنے سوا کسی کو قوم و ملک کا خیر خواہ سمجھنے پر تیا رہیں۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دینے کے بعد کوئی بھی ذمہ دار اور باوقار سیاست دان عہدے سے استعفی دے کر ایک بار پھر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کام کرتا۔ عمران خان نے البتہ یہ واضح کیا ہے کہ اقتدار کے لئے ہر روایت، قانون اور اخلاقیات کو پامال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا آخری خطاب واضح کرتا ہے کہ عمران خان ایک قومی المیے کا نام ہے۔ ان پر قوم کے ایک بڑے طبقے نے مسیحا کا گمان کیا لیکن بدلے میں جھوٹ ، دھوکہ ، نعروں اور سازش کے بے بنیاد الزامات کا پرچار کیا گیا۔
اقتدار میں رہنے کے لئے عمران خان نے سب سے پہلے سیاست دانوں کی کرپشن کو سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ حکمت عملی گزشتہ 70 برس کے دوران اسٹبلشمنٹ کا آزمودہ طریقہ رہا تھا۔ اسٹبلشمنٹ نے ملک میں سیاست کا چہرہ بدلنے کے لئے عمران خان کو لیڈر بنانا شروع کیا تو انہیں یہ نعرہ تھما دیا گیا۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کی بدعنوانی کے جھوٹے سچے قصے ملک کے بچے بچے کو یوں ازبر کروادیے کہ اب کوئی ایسا الزام عائد کرتے ہوئے یہ سوال کرنے یا سوچنے کی بھی زحمت بھی نہیں کرتا کہ اس کھلی بدعنوانی کے ثبوت مجاز عدالتوں میں کیوں سامنے نہیں آتے اور کیا وجہ ہے کہ کثیر قومی وسائل صرف کرنے کے باوجود قومی احتساب بیورو کو ہر عدالتی فورم پر منہ کی کھانا پڑتی ہے ۔ یا وہ پلی بارگین کے ذریعے حقیقی معنوں میں قومی دولت لوٹنے والوں کو علامتی ادائیگی کے بعد عزت دار شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا سرٹیفکیٹ عطا کرتا رہا ہے۔ یہ ادارہ بھی عمران خان کی طرح قومی سانحہ ہی کا دوسرا نام ہے جسے فوجی و سیاسی لیڈروں نے مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا۔ ملک میں اقتدار سنبھالنے والی کسی بھی نئی حکومت کو پہلے اس ادارے کا ’آڈٹ ‘ کرنے اور اس کے عہدیداروں کی غیر قانونی حرکتوں کا حساب لینا چاہئے۔ نیب نامی ادارہ کسی مہذب جمہوری معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لئے استعمال کئے جانے والے اس ادارے کو فوری طور سے ختم کرنا ضروری ہے۔
بدعنوانی کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد عمران خان نے مذہب کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اسکولوں کالجوں کے نصاب میں پہلے سے اسلامیات کی لازمی تعلیم شامل تھی تاہم اسے ناقص قرار دیتے ہوئے نیا نصاب لانے اور اسے اسلامی روایات کے مطابق ڈھالنے کا نعرہ تواتر سے استعمال ہونے لگا۔ اس نعرے کو سیاسی منشور میں نمایاں جگہ دینے کے لئے رحمت اللعالمین نامی اتھارٹی بنائی گئی۔ عمران خان کے سوا شاید کسی کو بھی اس اتھارٹی کے دائرہ کار، مقصد اور ضرورت کی خبر نہیں ہے لیکن ہر سیاسی تقریر میں پاکستان میں اسلامی اخلاقیات عام کرنے کی باتیں کرتے ہوئے اس اتھارٹی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان کی مذہبی شدت پسندی کو اس وقت حقیقی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب تحریک لبیک پاکستان نے فرانس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔ اس تنظیم پر پابندی لگانے اور اسے ملک دشمن قرار دینے کے بعد بالآخر اسے ’قومی سیاسی پارٹی‘ تسلیم کرلیا گیا اور اس کے لیڈروں کے خلاف قتل اور بلوہ سے لے کر ریاست کے خلاف بغاوت جیسے سنگین الزامات میں قائم کئے گئے مقدمات واپس لے لئے گئے۔
بدعنوانی اور مذہبی انتہا پسندی کے نعرے بھی ایک نااہل اور حقیقی مقصد سے بھٹکی ہوئی حکومت کی مدد نہیں کرسکے۔ معاشی بدانتظامی کی وجہ سے ملکی پیداوار میں مسلسل کمی اور قومی قرضے میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ساڑھے تین سال کے دور اقتدار میں تحریک انصاف کی حکومت نے 30 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کئے۔ کورونا وبا کے اثرات سے نمٹنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی پانچ چھے ارب ڈالر کی امداد ، ان قرضوں سے علیحدہ تھی۔ اس کے باوجود ملک میں معاشی استحکام دیکھنے میں نہیں آیا۔ بیروزگاری بڑھتی رہی اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی رہیں۔ زرعی پیداوار کا امتیاز رکھنے والا ملک اپنے شہریوں کا پیٹ بھرنے کے لئے گندم درآمد کرنے پر مجبور رہا ۔ لیکن ملک کا وزیر اعظم اور حکومتی نظام یا تو سیاسی دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کے مشن پر گامزن رہا یا قوم کو اخلاق بلند کرنے اور غیرت مند ہونے کا سبق پڑھاتا رہا۔ عمران خان نے کبھی یہ بنیادی نکتہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ عوام کی معاشی ضرورتیں اخلاقیات کا درس دے کر پوری نہیں کی جاسکتیں۔ بلکہ مفلوک الحالی اخلاقی اقدار کو کمزور کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔
داخلی سطح پر عملی ناکامیوں کے علاوہ خارجہ تعلقات میں نت نئی مشکلات پیدا کی گئیں۔ سعودی عرب کو کشمیر کے مسئلہ پر للکار کر بد ظن کیا گیا، چین کے ساتھ سی پیک میں مسائل پیدا کرکے فاصلہ پیدا کیا گیا اور امریکہ کو افغانستان سے بھاگنے کا طعنہ دے کر منہ موڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بعض سربراہان عمران خان کے طرز تکلم اور ’مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا‘ قسم کے طرز گفتگو سے بھی نالاں ہوئے۔ اس کے باوجود عمران خان کا دعویٰ رہا کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی شکل دینے میں کامیاب ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اسٹبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر عمران خان اقتدار تک پہنچے تھے، اس کے نمائیندے خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومت سے متضاد رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ بقائے باہمی کی بات کرتی ہے لیکن عمران خان عالمی گروہ بندی میں آلہ کار بن کر اسی بنیادی اصول کو پامال کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ کے موقع پر اگر عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو قومی سلامتی اور خارجہ حکمت عملی کے بارے میں پائے جانے والے تضادات کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
عمران خان اس وقت امریکہ سے بھیجے گئے ایک سفارتی مراسلہ کو بنیاد بنا کر پاکستانی نوجوانوں کو سڑکوں پر نکلنے اور کسی بھی نئی حکومت کو قبول نہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مراسلہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی عہدیدار نے پاکستانی سفیر سے کہا تھا کہ عمران خان کو روس نہیں جانا چاہئے تھا۔ ان کے طرز عمل کی وجہ سے ان کے دور حکومت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔ عمران خان کے بقول اس امریکی سفارت کار نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو نئی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان دو پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ عمران خان اپنی سفارتی تنہائی اور ہر قابل ذکر ملک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پر خود کو نمایاں کرنے کے لئے بے چین تھے۔
اسی خواہش کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے سرمائی اولمپکس کے موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے عمران خان کو روس کے دورہ پر بلانے کی استدعا کی۔ ماسکو یوکرائن پر حملہ کی تیاری کررہا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اس حملہ کے بعد اسے شدید سفارتی تنہائی اور امریکی مخالفت کا سامنا ہوگا۔ اسی لئے اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم کو ماسکو بلوا لیا گیا اور جس وقت عمران خان روسی دارالحکومت میں موجود تھے، عین اس وقت یوکرائن پر چڑھائی کردی گئی۔ اس جنگ کے پہلے روز صدر پوتن نے عمران خان کے ساتھ ایک گھنٹے کی مقررہ ملاقات کو بڑھا کر تین گھنٹے پر محیط کردیا۔ روس نے ایک سوچے سمجھے سفارتی منصوبہ کے تحت عمران خان کو پھانسا تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جاسکے کی یوکرائن پر حملہ تو ایک معمولی واقعہ ہے ورنہ روسی صدر تو غیر ملکی مہمانوں سے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت صرف کررہے ہیں۔ اب یہ تو عمران خان کو بتانا چاہئے کہ اس ملاقات میں کون سے عالمی مسائل حل کئے گئے تھے کہ اب امریکہ آپ کے خلاف سازش کررہا ہے۔
ماسکو نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے عمران خان کے سازش کے نعرے کو ایک بار پھر اپنی سفارتی ضرورت کے لئے استعمال کیا اور امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ عمران خان کو خود مختار خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہٹانے سازش کررہا ہے۔ عمران خان ابھی تک یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ جنگ پر آمادہ روس کا دورہ ایک بڑی غلطی تھا اور اس کی ٹائمنگ بہت افسوسناک تھی۔ نام نہاد خود مختار خارجہ پالیسی کی دعویدار عمران حکومت کو تو روس سے یہ احتجاج کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وزیر اعظم کی ماسکو میں موجودگی کے باوجود یوکرائن پر حملہ کیا گیا اور پاکستانی وفد کو اس بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ دنیا کی سفارتی تاریخ میں ایسے کم ہی مواقع آئے ہوں گے کہ میزبان ملک نے کسی غیر ملکی مہمان کو ایسی سفارتی مشکل سے دوچار کیا ہو۔ لیکن عمران خان تو اسے اپنا اعزاز سمجھ رہے ہیں۔ پھر بھی انہیں شکوہ ہے کہ امریکی عہدیدار نے اس پر اعتراض کیوں کیا؟ حالانکہ چھوٹا بڑا ہر ملک دوسرے ملکوں کی ایسی پالیسیوں کے خلاف اپنے تحفظات نوٹ کرواتا ہے جنہیں وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی اس سفارتی مراسلے سے کسی امریکی سازش کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ نہ ہی کسی قومی انٹیلی جنس ایجنسی نے ایسی کوئی معلومات فراہم کی ہیں کہ امریکہ بعض پاکستانی لیڈروں کے ساتھ مل کر عمران حکومت کے خلاف سازش کررہا تھا۔ لیکن عمران خان بدستور یہ چورن پاکستانی عوام کو بیچنے پر اصرار کررہے ہیں کیوں کہ اس جھوٹ کے سوا ان کے پاس کچھ بچا نہیں ہے۔ عمران خان نے نوجوانی سے خود کو ’ہیرو‘ کے طور پر دیکھا۔ اب وہ اپنی ایسی خوشنما تصویر کو پوجنے لگے ہیں جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے خوبرو ہیں جو بڑھاپے کی تصویر کو پہچاننے سے انکار کررہا ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہؤا کہ 2022 میں پاکستانی سیاسی محاذ 1992 کا کرکٹ میدان نہیں ہے جس میں کسی تکے یا چھکے کی مدد سے کامیابی حاصل کی جاسکے۔
سیاست میں ہیرو یا زیرو نہیں ہوتے۔ اس میں سیاسی پارٹیاں ایک منشور کی بنیاد پر عوام کا مینڈیٹ حاصل کرتی ہیں۔ عمران خان نے عوام کا یہ مینڈیٹ ’چوری ‘کرکے ساڑھے تین سال حکومت کی ہے۔ اگر وہ ملکی معاملات کو درست ڈگر پر چلا پاتے تو شاید انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع مل جاتا لیکن کارکردگی میں زیرو نے ان کے ہیرو والے امیج کو داغدار کردیا۔ اب عمران خان کو اسی امیج کے ساتھ زمینی سچائیوں کا سامنا کرنا ہے۔ لوگوں کودھوکہ دینے اور پاکستان کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرنے کے نعروں سے ان کی شخصیت کو چار چاند نہیں لگیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ