اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ا فغانستان گزشتہ 40 سال سے مشکلات کا سامنا کرتا رہا ہے اور اگر دنیا نے اس وقت کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا۔
پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کا 17واں غیر معمولی اجلاس اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری ہے۔یہ اجلاس سعودی عرب کی دعوت پر طلب کیا گیا ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کا چیئرمین ہے۔
پاکستان نے اجلاس بلانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی میزبانی کی پیشکش کی تھی۔
پاکستان کی دعوت پر اجلاس میں 22 ممالک کے وزرائے خارجہ، 10 نائب وزرائے خارجہ سمیت 70 وفود شریک ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ستم ظریفی ہے کہ 41 سال قبل جب پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس ہوا اس وقت بھی اس کا موضوع افغانستان ہی تھا، افغانستان گزشتہ 40 سال سے مشکلات کا سامنا کرتا رہا ہے اور اگر دنیا نے اس وقت کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا‘۔انہوں نے کہا کہ اگر ڈاکٹروں، اساتذہ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہ کی جائیں تو کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی، اگر دنیا کو داعش کے خطرے سے بچانا ہے تو افغانستان کو مستحکم کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی افغانستان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور اس وقت بھی ملک کا 75 فیصد بجٹ بیرونی امداد پر منحصر تھا۔انہوں نے کہا کے افغان عوام کی مدد کرنا او آئی سی کی مذہبی ذمہ داری ہے۔
امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکا کو چاہیے کہ 4 کروڑ افغان عوام اور طالبان حکومت کو علیحدہ علیحدہ دیکھے، انہوں نے کہا امریکا 20 سال تک طالبان کے ساتھ جنگ میں رہا لیکن یہ افغان عوام کا سوال ہے۔
وزیر اعظم نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ طالبان کو عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بشمول جامع حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے خیبر پختونخوا کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر معاشرے میں انسانی حقوق کا تناظر مختلف ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر افغانستان میں افراتفری ہوگی تو مہاجرین میں اضافہ ہوگا، یہ مہاجرین صرف پاکستان اور ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دیگر ممالک کو بھی ان کا سامنا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جن میں سے 2 لاکھ افراد اپنے ویزے ختم ہوجانے کے باوجود واپس نہیں گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جاری صورتحال کا مطلب ہے کہ وہ واپس نہیں جاسکتے۔
شرکا سے مخاطب ہوتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے افغانستان کے لیے فوری امداد کی تجاویز سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’افغانستان میں جاری افراتفری کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، میں دوبارہ یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ غیر مستحکم افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں اور امید کرتا ہوں کہ اس اجلاس کے اختتام تک آپ تمام شرکا کسی روڈ میپ پر متفق ہوجائیں گے۔
غیر معمولی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اجلاس بلانے میں سعودی عرب کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے رکن ممالک اور دیگر وفود کے ساتھ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کو خوش آمدید کہا کہ اور کہا کہ ان کے تقرر کے بعد یہ پہلا وزارئے خارجہ اجلاس ہے۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )
فیس بک کمینٹ