وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ق) کے لیڈر مونس الہیٰ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کو چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ملاقات سے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ یہ یقین دلاتے ہوئے انہوں نے عمران خان سے کہا کہ ’آپ اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ گھبرانا نہیں ہے‘۔ اس پر وزیر اعظم نے مونس الہیٰ اور ان کے خاندان کی ’وفاداری‘ پر بھرپور یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ پریشان تو وہ ہیں جنہیں پندرہ سال بعد چوہدری شجاعت کی صحت کے بارے میں فکر لاحق ہوئی ہے‘۔
اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران عمران خان اور مونس الہیٰ کا یہ مکالمہ یوں تو کوئی خاص واقعہ نہیں ہے لیکن اس سے بہر صورت حکومت کی پریشانی ظاہر ہوتی ہے۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرچکی ہے۔ اس سلسلہ میں پائے جانے والے اختلافات کو بظاہر ختم کر لیا گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پاکستان جمہوری تحریک کی قیادت نے بھی طے کیا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر مزید برداشت کرنا ملک و قوم کے مفاد کے خلاف ہوگا۔ اس مقصد کے لئے غریب کی حالت زار، مہنگائی کی صورت حال اور ملک کی سفارتی تنہائی کا خاص طور سے حوالہ دیا جاتا ہے۔
یوں تو پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی بات بہت عرصے سے کہی جارہی ہے لیکن مسلم لیگ کے رہبر اعلیٰ نواز شریف اس تجویز سے پوری طرح متفق نہیں تھے۔ آثار بتاتے ہیں کہ نواز شریف نے بھی اس حوالے سے سیاسی ہوم ورک کرنے کا اشارہ دے دیا ہے جس کے بعد لاہور میں پیپلز پارٹی کے قائدین نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس کے بعد پارٹی اور پی ڈی ایم کے فورمز پر غور کے بعد اب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے۔ تاہم اس بارے میں اہم تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں البتہ سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع ہؤا ہے ۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ اپوزیشن اپنا ہوم ورک مکمل کرکے قومی اسمبلی میں تحریک پیش کرے گی۔ اسی لئے مسلم لیگ (ق) کے قائدین کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ کو اس وقت سیاسی سرگرمیوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ق) پنجاب کے علاوہ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی اہم حلیف ہے۔ اس کی مدد کے بغیر نہ ہی پنجاب کی حکومت قائم رہ سکتی ہے اور نہ ہی مرکز میں عمران خان اقتدار قائم رکھ سکیں گے۔
چوہدری شجاعت حسین سیاست کے اس پیچیدہ اور دلچسپ مرحلے پر اپنی اہمیت سے خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف وہ حکومت کے حلیف ہیں اور کسی بھی موقع پر مسلم لیگ (ق) نے حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کا عندیہ نہیں دیا لیکن پارٹی لیڈروں نے لاہور میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیر مین آصف زرداری کے بعد پی ڈی ایم کے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کے لئے علیل اور صاحب فراش چوہدری شجاعت حسین کی مزاج پرسی کو عذر بنایا گیا ہے لیکن یہ نجی ملاقاتیں نہیں تھیں اور شرکا نے سیاسی معاونین کے ہمراہ ان اکابرین سے ملاقات کی ۔ کسی نے اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت کی قیادت کو اچانک کیوں اپوزیشن لیڈروں سے ملاقاتوں کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ خاص طور سے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے دو وفاقی وزرا بھی شریک گفتگو تھے۔ یہ ملاقات کسی لحاظ سے سماجی گپ شپ نہیں تھی بلکہ مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کرنے کے بعد ایک نکاتی ایجنڈے پر چوہدری برادران سے ملے تھے۔ ملاقات کے دوران ان کا صاف پیغام یہ تھا کہ وقت آگیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت پر راضی ہوجائے۔ یعنی حکومتی اتحاد کو خیر آباد کہہ دے۔ اس ملاقات کے حوالے سے اہم بات یہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے قائدین نے اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے دو ٹوک الفاظ میں مسترد نہیں کیا اور مناسب وقت پر فیصلہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
البتہ اتوار کو شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے وفد کی چوہدری برادران کے ہاں آمد اور ملاقات کو اہمیت دی جارہی ہے۔ گجرات کے چوہدری برداران طویل عرصہ تک نواز شریف کے قریبی ساتھی رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں چوہدری شجاعت حسین کو نواز شریف کی ’کچن کیبنٹ‘ کا حصہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹا تو چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف کے ساتھ دیرینہ تعلق ترک کرکے پروویز مشرف کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ اس دوران پرویز الہیٰ طویل عرصے تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور چوہدری شجاعت حسین ایک موقع پر قائم مقام وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ پرویز مشرف کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے ہی مسلم لیگ (ق) بنائی گئی ۔ جس زمانے میں پرویز مشرف سے ملک کا صدر رہنے کے لئے فوج کے سربراہ کے عہدے سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کیا جاتا تھا اور ان کے خلاف وسیع تر سیاسی اشتراک قائم ہورہا تھا تو پرویز الہیٰ نے پرویز مشرف کو تاحیات صدر منتخب کرواتے رہنے کا اعلان کرکے سابق فوجی آمر کے ساتھ اپنی مکمل وابستگی و وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ ’وفاداری‘ پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کے دوران کمزور پڑنے لگی۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد پرویز مشرف کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے علیحدہ مسلم لیگ بنانا پڑی اور چوہدری برادران مسلم لیگ (ق) کے ہمراہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے اتحادی بنے اور اب تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں۔
اس دوران نواز شریف چوہدری برداران سے شدید رنجیدہ خاطر رہے ۔ ان کے خیال میں اس سیاسی خانوادے نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ اسی لئے گزشتہ ایک دہائی کے دوران شریف خاندن اور چوہدری برداران کے درمیان کسی مفاہمت کا امکان پیدا نہیں ہؤا حالانکہ متعدد عناصر نے اس سلسلہ میں کوشش کی تھی۔ اس پس منظر میں جب شہباز شریف اتوار کو مسلم لیگ (ن) کے وفد کے ساتھ چوہدری شجاعت کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر گئے تو اسے غیر معمولی سیاسی واقعہ سمجھا جارہا تھا۔ عام قیاس یہی تھا کہ پنجاب کے یہ دو سیاسی خانوادے اب ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکیں گے۔ نہ ہی یہ ممکن تھا ک نواز شریف کی مرضی کے بغیر شہباز شریف چوہدری شجاعت حسین کے گھر جاتے۔ یہ ملاقات آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے چوہدری شجاعت حسین کی ملاقات کے بعد ہوئی تھی۔ اس لئے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جس ایک نکاتی ایجنڈے پر اپوزیشن لیڈر حکومتی اتحاد میں شگاف ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، چوہدری برادران نے اگر اس سے مکمل اتفاق نہیں کیا تو بھی وہ اس معاملہ پر ’غور‘ کرنے پر تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اپنے ایک پرانے ساتھی سے ملنے گئے جنہوں نے آمریت کے دور میں اپنی ہی پارٹی اور جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے کی بجائے ایک فوجی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے اور مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کے ذریعے مسلم لیگ (ق) کھڑی کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ ایسی کوئی بھی ملاقات پہلے سے پیدا کئے گئے اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مونس الہیٰ اسے معمول کی سیاسی سرگرمی قرار دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی تحریک انصاف کو ’گھبرانا نہیں ہے‘ کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
ایک اتحادی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر نے وزیر اعظم کی موجودگی میں حوصلہ مندی کے بارے میں عمران خان ہی کا ایک فقرہ استعمال کیا۔ ’ آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ کہتے ہوئے عمران خان پاکستانی عوام کو دگرگوں ملکی حالات کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم جس تواتر سے انہوں نے یہ فقرہ کہا اسی رفتار سے حالات پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑتی رہی۔ اب عمران خان یہ فقرہ شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ البتہ گزشتہ روز کے سیمینار کے کے دوران جب مونس الہیٰ نے عمران خان ہی کا جملہ دہرا کر حکومت کو اطمینان دلانے کی کوشش کی تو اسے سیاسی لحاظ سے ذومعنی اظہار سمجھا جائے گا۔ یہ حکومت کا بہر صورت ساتھ دینے کی سو فیصد ضمانت نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے یاد دہانی کروائی ہے کہ ان کا خاندان سیاسی خاندان ہے جو تعلقات بنانے اور انہیں نبھانے پر یقین رکھتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ چوہدری برادران کے مراسم و تعلق کا حوالہ بھی دیا۔ البتہ انہوں نے یہ یقین نہیں دلایا کہ یہ تعلق کب تک حکومتی اتحاد کی صورت میں جاری رہ سکتا ہے۔ عمران خان کی کابینہ کے ایک رکن کا وزیر اعظم کے سامنے یہ انداز گفتگو دونوں پارٹیوں اور ان کے قائدین کے درمیان مراسم کی دلچسپ کہانی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ یہ گفتگو حکومت کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کا ویسا ہی اشارہ ہے جیسے اشارے چوہدری برادران آج کل عمران خان کو بھیج رہے ہیں۔ وہ حکومت کے اتحادی ہیں لیکن اس کے سیاسی دشمنوں کی بات سننے اور ان کے ساتھ مل بیٹھنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ق) کے ایک لیڈر اس صورت حال کو یہ کہہ کر واضح کرچکے ہیں کہ وہ ریاست کے اتحادی ہیں۔ سیاسی مبصرین جانتے ہیں کہ اس فقرے میں ریاست کا استعارہ اسٹبلشمنٹ کے لئے استعمال کیا گیاہے۔ اسی طرح پرویز الہیٰ کا یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابھی تو کچن میں برتن اکٹھے ہورہے ہیں، جب کچھ پکے گا تو دیکھیں گے۔ البتہ وہ یہ بتانے پر آمادہ نہیں ہیں کہ کچن کی اس سرگرمی میں ان کی اپنی پارٹی کا کتنا حصہ ہے۔
پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مزاحمت کی تاریخ افسوسناک باب ہے۔ متعدد مواقع پر اپوزیشن بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود اہم ترین قانون سازی میں حکومت کا راستہ نہیں روک سکی۔ حتی کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومتی ایجنڈا ہی کامیاب ہوتا رہا ہے۔ اسٹیٹ بنک بل کی منظوری اس کا تازہ ترین اظہار ہے۔ ان حالات میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کروانے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔ پھر بھی عمران خان اس حد تک گھبرائے ہوئے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاسی سر گرمیوں سے سراسیمہ دکھائی دیتے ہیں اور ان کے ایک وزیر کو یاد دلانا پڑا ہے کہ انہیں ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘۔حکومت اور اپوزیشن کسی بھی سیاسی پیش رفت کے لئے اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آج ہی آرمی چیف نے وزیر اعظم اور صدر مملکت سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی ہے۔ اپوزیشن بھی اسٹبلشمنٹ کی غیر جانبداری کی خبریں پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ امکان موجود ہے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول بناکر حکومت کی سیاسی پریشانی میں اضافہ ہی مقصود ہو۔ اگر یہی اپوزیشن کی حکمت عملی ہے تو وہ اس میں ضرور کامیاب ہے۔ عمران خان اس بدحواسی میں کوئی غلطی بھی کرسکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر ایک سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کی کوشش میں جمہوری روایت کو مضبوط کرتے ہیں یا اسٹبلشمنٹ کی طاقت میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )