جنوبی ایشیا اور اس خطہ کی سیاست کی بنیادی کنجی سیاسی و معاشی استحکام اور ایک دوسرے ممالک کے درمیان بہتر تعلقات سے جڑی ہوئی ہے اور یہ ہی اہم سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ خطہ کی سیاست میں ایک بڑا نکتہ پاک بھارت تعلقات بھی ہیں۔ اس تعلقات میں بہتری کی نوعیت محض ایک یا دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا مثبت اثر پورے خطہ کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری تو کجا بلکہ ہر سطح پر بات چیت یا مذاکر ات کے سیاسی دروازے بھی بند ہیں۔ پاکستان نے مذاکر ات کی بحالی کے لیے پچھلے چند برسوں میں جو بھی سیاسی، انتظامی اور عسکری آپشن اختیار کیے اس کا کوئی مثبت جواب نہ مل سکا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ مذاکر ات کی بحالی پاکستان کو فائدہ دے گی، یہ ہی وجہ ڈیڈ لاک کے پیدا ہونے کی بھی ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہی ہے کہ کیا بھارت پاکستان کو ایک مستحکم پاکستان اور اپنے ساتھ بہتر تعلقات کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے؟ اس وقت اگر ہم بھارت اور بالخصوص نریندر مودی کی حکومت کو دیکھیں تو اس کی سیاسی سوچ اور فکر بنیادی طو رپر پاکستان مخالفت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ مودی حکومت نے جو بیانیہ داخلی اور خارجی محاذ پر اختیار کیا ہوا ہے وہ پاکستان مخالفت پر ہے۔ وہ عالمی دنیا میں چار باتوں پر پاکستان کا بیانیہ بیان کرتا ہے۔اول پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی میں حقیقی اقدامات کی بجائے محض عالمی دباو کو خوش رکھنے کے لیے مصنوعی اقدامات سے آگے بڑھ رہا ہے۔ دوئم ایف اے ٹی ایف پر بھی اس کے اقدامات میں جان نہیں بلکہ غلط معلومات اور اعداد و شمار کی بنیاد پر عالمی دنیا کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ سوئم پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بطور پر ہتھیار نہ صرف استعمال کرتا ہے بلکہ بھارت کی داخلی سیاست کا جو انتشار یا دہشت گردی ہے اس کے پیچھے بھی پاکستان کی ریاست موجود ہے۔ چہارم وہ اپنے اورعالمی میڈیا، تھنک ٹینک، رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارے اور سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر پاکستان مخالفت کی جنگ میں نہ صرف شدت پیدا کر رہا بلکہ پروپیگینڈا مہم کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔حالیہ انکشاف ای یو ڈس انفولیب کی تحقیقی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت بطور ریاست وحکومت جعلی خبروں کو بنیاد بنا کر یورپی یونین اور اقوام متحدہ کو اپنے بیانیہ کے حق میں گمراہ کرنے کہ منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ”ائی یو کرائیکل ویب سائٹ“ کو پاکستان مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول مذکورہ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بہت سے کالم یورپی قانون سازوں اور صحافیوں کے ناموں سے غلط طور پر منسوب کیے جاتے ہیں۔ ایسے مواد کو جو پاکستان مخالفت پر ہوتا ہے اسے دوبارہ بھارت کے اخبارات و رسائل میں نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق بھارتی ادارہ ”سری واستو“ ای یو کرائیکل ویب سائٹ کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یہ تنظیم بھارتی مفادات کو آگے بڑھاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایک مردہ پروفیسر، کئی غیر فعال تنظیمیں اور 750 کے قریب مقامی میڈیا کی تنظیموں کی مدد سے بھارت دس انفارمیشن، بھارتی مفادات اور پاکستان مخالفت کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر دیانت داری سے کوئی بھی فرد بھارت کے رسمی میڈیا جس میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا تجزیہ کرے تو اس میں پاکستان کے میڈیاکے مقابلے میں زیادہ سطح پر شدت، نفرت، غصہ اور پاکستان دشمنی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس میں پاکستان اور مسلم دشمنی کی جھلک بھی کافی نمایاں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ففتھ جنریشن وار یا ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا وار ایک بڑا سیاسی ہتھیار ہے جو ہمارے خلاف بڑی شدت سے استعمال ہو رہا ہے جو بھارتی سیاسی حکمت عملی کا خاصہ ہے۔بھارت کے سامنے ایک بڑا چیلنج سی پیک کی کامیابی اور افغان امن کی بحالی بھی ہے۔ بھارتی قیادت ایک سے زیادہ مرتبہ یہ اعتراف کرچکی ہے کہ اسے سی پیک موجودہ صورتحال میں قبول نہیں اور وہ افغان امن کو بھی اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان دونوں محاذ پر ہمیں ناکامی سے دوچار کرنا یا بڑی مشکلات کو پیدا کرنا بھی بھارت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس وقت ایف اے ٹی ایف میں اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو ہر صورت میں بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو کم ازکم وہ گرے لسٹ کا حصہ رہے۔بھارت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان کو زیادہ سے زیادہ سیاسی تنہاہی میں رکھا جائے۔ بھارت کی مشکل یہ بھی ہے کہ حالیہ ایک برس میں اسے سب سے زیادہ کشمیر کے معاملے پر عالمی میڈیا کے سامنے کافی پسپائی کا سامنا ہے۔ اس میں بھارت کا اپنا میڈیا مودی کی ناکامی اور عمران خان یا پاکستان کی کامیابی کے طو رپر پیش کرتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بقول صرف ایک برس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت کی وجہ سے 270 افراد کو شہید کیا گیا۔ ایمنسٹی کے بقول انتہا پسند ہندووں نے 2100 سے زیادہ مسلم لڑکیوں کی شادی ہندووں سے کروانے کے لیے بی جے پی کے عسکری ونگ کو ٹاسک دیا گیا ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے سمیت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد عالمی دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد ڈویزئر کی صورت میں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کیے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ان شواہد کو بنیاد بنا کر عالمی دنیا، عالمی میڈیا اور تھنک ٹینک کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ہم دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عالمی دنیا اس وقت بھارت کے مجموعی کردار کا جائزہ لے اور پاکستان مخالفت میں بھارت بطور ریاست جو کچھ کر رہا ہے اس پر نوٹس بھی لے۔ لیکن اس پر جو بڑی کامیابی ہمیں ملنی چاہیے اس میں اب بھی بہت سے چیلنجز ہیں۔تین بڑے چیلنجز ہمیں درکار ہیں۔ اول ہمیں عالمی دنیا کے حکمرانوں اور میڈیا کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات پر جو سنجیدگی دکھائی ہے اسے ہر سطح پر تسلیم کیا جائے۔ دوئم بھارت جو کچھ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی بڑی مخالفت میں کر رہا ہے اس پر عالمی دنیا بھارت پر دباو ڈالے کہ وہ نہ صرف پاکستان سے تعلقات کی بہتری میں پیش رفت کرے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سمیت تمام معاملات میں بہتری اور منفی اقدامات سے گریز کرے۔ سوئم سی پیک اور افغان امن سے جڑے معاملات پر مشکلات پیدا کرنے کی بجائے خطہ کی ترقی، خوشحالی اور توازن پیدا کرنے میں پیش رفت کرے ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے تاکہ خطہ میں استحکام پیدا ہو۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پاکستان داخلی سیاست سے جڑے مسائل، سیاسی و معاشی استحکام، سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر سرگرم اور فعالیت کے عمل کو آگے بڑھائے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں دنیا میں اس پیغام کو واضح طور پر اور شفاف انداز میں آگے پیش کرنا ہوگا کہ پاکستان ہر صورت میں بھارت سے تعلقات میں بہتری کا خواہش مند ہے۔ ایسے کسی مثبت عمل میں ہم بھارت کا ساتھ دیں گے اور اگر کہیں تعلقات کی بہتری میں کوئی رکاوٹ ہے تو اس میں ہم نہیں بلکہ بھارت کا زیادہ کردار ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )