اقبال ساغر صدیقی ہمار ے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اس زمانے کے صحافی تھے جب صحافت واقعی ایک مشن ہوا کرتی تھی۔ جب صحافی کی لکھی ہوئی بات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ آج جو مسائل پورے پورے صفحات اور ٹی وی چینلوں کے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹوں کے پروگراموں کے باوجود حل نہیں ہوتے اس زمانے میں ایڈیٹر کی ڈاک میں چند سطر کا مراسلہ شائع ہونے سے حل ہوجایا کرتے تھے اور اس لئے حل ہوتے تھے کہ اس زمانے میں ایڈیٹر کا ادارہ معتبر تھا اور اقبال ساغر صدیقی جیسی شخصیات ایڈیٹر کے مناصب پر فائز تھیں۔ ایڈیٹر کا عہدہ اس لئے بھی معتبر تھا کہ ایڈیٹر اس زمانے میں ٹرانسپورٹر نہیں تھے۔ وہ گیٹ ہاسز کے مالک نہیں تھے۔ ایڈیٹر زمینوں پر قبضے کرانے کیلئے پولیس کے ساتھ روابط نہیں رکھتے تھے۔ ایڈیٹر اس دور میں سٹیٹ کے محافظ ہوتے تھے۔ فی زمانہ وہ اسٹیٹ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ قلم کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور اس لئے خیا ل رکھتے تھے کہ وہ خود بھی قلمکار ہوتے تھے۔
اقبال ساغر صدیقی اور ان سے پہلے مسعود اشعر کی ادارت میں امروز نے ملتان میں ایک ترقی پسند اور روشن خیال معاشرہ ترتیب دیا۔ اخبار کا دفتر ایک ادبی و ثقافتی مرکز کے طور پر جاناجاتاتھا۔ اقبال ساغر صدیقی، ولی محمد واجد، حنیف چوہد ری ، مرزا ابن حنیف، نوشابہ نرگس، حزیں صدیقی،رشید ارشد سلیمی ، مسیح اللہ جام پوری اور مظہر عارف جیسے قلمکار اس اخبار سے وابستہ تھے۔ امروز ایک سرکاری اخبار تھا لیکن اس سرکاری اخبار کے کارکنوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ انہوں نے جمہوریت کیلئے جو قربانیاں دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ اقبال ساغر صدیقی جیسے صاحب اسلوب انشائیہ نگار اور کالم نگار کی تحریریں پڑھ کر ہم نے با ت کہنے کا سلیقہ سیکھا۔ سنسر شپ کے زمانے میں سب کچھ کہہ کر بھی ضیا جیسے ڈکٹیٹر کے چنگل سے کیسے بچاجاسکتاہے۔ ہماری یہ تربیت اقبال ساغر صدیقی اور منو بھائی کے کالموں سے ہوئی۔ ساغر صاحب کے بعض جملے ضرب المثل کی طرح مشہور ہوئے۔ ضیا دور میں محمد علی ہوتی وزیر تعلیم ہوتے تھے۔ اقبال ساغر صدیقی نے ایک کالم میں لکھا
” زوال تعلیم کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے دور میں وزیر تعلیم ہوتے تھے اب ہوتی ہیں ”۔
شائستہ اور برجستہ مزاح اقبال ساغر صدیقی کے انشائیوں کی بنیادی خوبی ہے ۔ وہ اشعار اور مصرعوں کے برمحل استعمال سے اپنی تحریر کو خوبصورت بناتے تھے۔ ہم نے انہیں بار ہا تقریبات میں مضمون پڑھتے سنا۔ جب تک اقبال ساغر صدیقی سٹیج پر موجود رہتے تھے پنڈال قہقہوں اور تالیوں سے گونجتا رہتاتھا۔ لاڈ سپیکر کے بارے میں ان کے ایک مضموان کا اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
”پیدائش کے بعد مولوی صاحب نے ہمارے کان میں اذان دی ، ہماری زندگی کی وہ پہلی اور آخری اذان تھی جو ہم نے لاڈ سپیکر کے بغیر سنی” ۔
” گل افشانیء گفتار” اقبال ساغر صدیقی کے مضامین کے مجموعے کا نام ضرور ہے لیکن یہ گل افشانی ان کی شخصیت کا بھی حصہ تھی۔ 1999 میں مختلف اخبارات کے نوجوان صحافیوں نے ملتان میں روزنامہ” نیادن” کا اجرا کیا۔ اخبار کی اشاعت کے بعد ساغر صاحب کا فون آیا، کہنے لگے
” جس طرح آپ نوجوانوں نے مل جل کر نیا دن نکالا ہے اسی طرح ہم بوڑھوں نے مل جل کر امروز بند کرایاتھا”
اسی طرح ایک مرتبہ امروز کی بندش کے اسباب پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے
” بھئی امروز کیا چلتا، ہمارے ہیڈ کاتب کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا اور چیف رپورٹر اونچا سنتے تھے”
یہ اور ایسی بہت سی خوبصورتیاں اقبال ساغر صدیقی کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ وہ ملتان کی صحافت اورادب کا معتبر حوالہ تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس شہر کی پہچان ہیں ۔جنہوں نے اس شہر کو خوبصورت بنایا۔ شہر ایسی ہی نابغ روزگار شخصیات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ شہروں کو بلندو بالا عمارتیں،میٹرو بسیں اور فلائی اوورز نہیں اقبال ساغر صدیقی جیسی شخصیات خوبصورت بناتی ہیں۔
اقبال ساغر صدیقی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ہمیں لکھنا سکھایا۔ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور راستہ بھی دکھایا۔ میں ہمیشہ اعتراف کرتا ہوں کہ اگر اقبال ساغر صدیقی میری پہلی تحریر شائع نہ کرتے تو مجھ میں دوسرا مضمون تحریر کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔وہ میرے محسن تھے۔وہ میرے بے ربط مضامین اور ٹوٹی پھوٹی غزلیں شائع نہ کرتے تو شاید میں آج کسی محکمے میں کلرک یا زیادہ سے زیادہ کوئی افسر ہوتا۔ ممکن ہے رشوت بھی لے رہا ہوتا۔ ساغر صاحب میں آپ کا آپ کی محبتوں کا قرض کبھی بھی نہ چکاسکوں گا۔
( بشکریہ : روزنامہ ” سب نیوز “ اسلام آباد )
فیس بک کمینٹ