سیاست کے سینے میں دل تو کبھی کسی دور میں بھی نہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ بُغض کی خاردار فصل پروان چڑھی۔ کدورتوں کی کھاد اور نفرتوں کے تعفن بھرے پانیوں نے اُسے گھنے دلدلی جنگل میں بدل دیا۔ اب سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں رہی۔ تہذیب کے ادنیٰ قرینوں سے تعلق رکھنے والی قومیں بھی سنبھل گئیں لیکن ہمارے ہاں پچھلے پانچ سات برس میں ایک نئی وبا پھوٹی۔ قوم کو مُستقیم راہیں دکھانے کے دعویداروں کی زبانیں گز گز بھر لمبی ہو گئیں۔
انہوں نے طفلانِ کوچہ و بازار جیسی نئی لغت مُتعارف کروائی۔ الزام تراشنے، گالی دینے، سرِعام بے لباس کر ڈالنے، بے سروپا جھوٹ بولنے اور تواتر کے ساتھ بولتے ہی چلے جانے کی ایک نئی حیا باختہ روایت نے جنم لیا۔ دروغ گوئی برہنہ گوئی میں ڈھلی اور سیاست، انسانی اخلاقیات سے یکسر عاری ہو کر، اوباش نگری بن کے رہ گئی۔ اب اس کا کسی فلسفے،کسی مسلک، اور کسی نظریے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ صف بہ صف، دُو بہ دُو کھڑے لشکر ہیں جن کے لشکریوں کی کمانیں زہر میں بجھے تیر اُگلتی اور غنیم کا جگر چھلنی کرتی رہتی ہیں۔
معاشرے کے سبھی طبقات کسی نہ کسی لشکر کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ جو بظاہر حق گوئی و بے باکی کو اپنے تجزیوں کی اساس قرار دیتے ہیں۔ وہ بھی جو سرِ شام، پیغمبرانہ تمکنت کے ساتھ وعظ و نصیحت کی مسندوں پر بیٹھتے اور ہر صبح اپنے ‘صداقت شعار’ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہیں، وہ بھی جو اپنے سروں پر غیر جانبداری کی دستارِ فضیلت سجائے، صحافت کے افلاطون وارسطو کہلاتے ہیں۔
برقی میڈیا کی صد رنگ خیمہ گاہوں میں ہر روز ایک مینا بازار سجتا ہے۔ گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہر گاہک کو اپنے پسند کے کریانہ فروش سے اپنی پسند کا سودا مل جاتا ہے۔ ایک دکان کی سچی اور کھَری جنس دوسری دکان میں جعلی اور کھوٹی ہو جاتی ہے۔ سچ اور جھوٹ کے آشوب میں مُبتلا خلقِ خدا، مُتعفّن دلدلوں والے گھنے جنگل میں راستہ تلاش کرتے کرتے ہلکان ہو رہی ہے۔سو جب شام ڈھلے ایک ٹی وی چینل کے دریچے سے جھانکتے سینئر تجزیہ کار اور کہنہ مشق صحافی نے اپنی بات میں ایمان و یقین کا رس گھولتے ایک شانِ بے نیازی سے کہا ”فیصلہ جو بھی ہو، منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے نا۔ کرپشن تو کی گئی ہے نا-ملک کو تو لوٹا گیا ہے نا۔ فیصلوں سے یہ داغ دُھل تو نہیں جائیں گے نا !“ تو مجھے رتی برابر حیرت نہ ہوئی۔
احتساب عدالت میں میاں نواز شریف سے الوادعی مصافحہ کرتے اور پولیس وین تک چھوڑتے ہوئے میں نے کہا ”میاں صاحب انشاءاللہ آپ سے اگلی ملاقات رائے ونڈ میں ہوگی “۔ ان کا جواب مختصر تھا ”اللہ آپ کی زبان مبارک کرے “۔ نیب عدالت سے اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے ہوئے میں نے پرویز رشید سے کہا ”پرویز ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کب تک ہو تا رہے گا؟“وہ گاڑی چلا رہا تھا۔ لمحہ بھر کیلئے گردن گھما کر مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور بولا ”مجھے شک پڑ گیا تھا کہ میرے ساتھ کوئی اور بیٹھا ہے۔ اگر یہ عرفان صدیقی ہے تو اُس نے یہ بے تکا سوال کیوں پوچھا ہے؟“ میں اپنی غلطی کا احساس کر کے چپ ہو گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھوٹے سے کمرے میں بمشکل بیس پچیس افراد کی گنجائش ہو گی لیکن اس میں کم و بیش ڈیڑھ سو افراد ٹھنسے ہوئے تھے۔ خواتین بھی، مرد بھی، کرسیوں پر بیٹھے، ان کرسیوں کے آگے اور پیچھے ایک دوسرے پہ چڑھے، دیواروں سے چمٹے، ایک دوسرے کو دبوچتے، بمشکل سانس لیتے لوگ مسلسل دھکے کھا رہے تھے۔ ان کا دم گھُٹا جا رہا تھا لیکن کوئی باہر جانے کو تیار نہ تھا۔ باہر جا بھی نہیں سکتا تھا۔
یہی کیفیت بیرونی برآمدوں اور راہداریوں کی تھی جہاں سینکڑوں افراد جمع تھے۔ اگر حافظ منوّر ایڈووکیٹ میری مدد کو نہ آتے تو میں بھی باہر کھڑے ہجوم کا حصہ رہتا۔ رانا تنویر حسین نے آخری قطار میں دروازے سے متصل بچھی کرسی میرے لیے خالی کر کے جانے کہاں پناہ لی لیکن اُس کرسی پہ بیٹھنے کے بعد بھی میں شکنجے میں جکڑا، دھکم پیل کی زد میں رہا۔ میرے عین سامنے کھڑے ہو جانے والے نوجوان کے بھاری جوتے، پیہم میرے پاﺅں پر مشق ِستم کرتے رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اور نگزیب نے نشستیں سنبھالیں۔ نیب کے سینئیر وکیل نے اپنے دلائل کی پٹاری کھولی لیکن اس کا احوال گلی محلے کے مداری والی پٹاری کا سا ہی رہا۔ شیش ناگ تو خیر کہاں سے آتا، پٹاری سے برسات کا مارا ایک مریل سا کینچوا نکلا جو رینگ بھی نہیں سکتا تھا۔ معاون وکیل نے بھی پھیپھڑوں کی بھرپور طاقت سے بین بجائی لیکن کینچوا کیسے پھن پھیلاتا۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے چند منٹ میں اپنے دلائل کو سمیٹا۔
یہ الف لیلہٰ کی پُراسراریت لیے ایک ہوش رُبا کہانی ہے۔ اس کہانی نے ایک بار پھر یہ بے ننگ ونام روایت تازہ کی کہ جب منہ زور ہوائیں طے کرلیں تو بڑے سے بڑا تناور درخت بھی ناتواں تنکا بن جاتا ہے۔ کوئی چالیس سال قبل ایسی ہی منہ زور آندھیوں نے قانون و انصاف کی ایسی ہی بارگاہوں کے ذریعے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا تھا۔ وکلاء بتاتے ہیں کہ وہ دن اور آج کا دن، قانون دان اس فیصلہ کا حوالہ دینا بھی، نظام عدل کو گالی دینا سمجھتے ہیں۔
اُس وقت کے جابروں نے طے کر لیا تھا کہ عوامی مقبولیت پر ناز کرنے والے اس شخص کو عبرت کا نمونہ بنانا ہے سو بنا دیا گیا۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ تب اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تین ججوں میں سے ایک جج، جسٹس غلام صفدر شاہ نے لب کشائی کی تو اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر مقدمات کے دفتر کھل گئے۔ ایف۔ آئی۔ اے چڑھ دوڑا یہاں تک کہ اُسے ملک بدر ہونا پڑا۔ برسوں بعد جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے کہہ بھی دیا کہ ہم پر بہت دباﺅ تھا تو کیا حاصل؟ اب گڑھی خدا بخش کی ایک قبر میں سویا ذوالفقار علی بھٹو نیا جنم لینے سے تو رہا۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ ضمانت یا سزا معطلی کی درخواست ایک یا دو دن سے زیادہ نہیں چلتی لیکن یہاں دو مرحلوں میں اس پر دو ہفتے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ اس لئے کہ نیب کی حکمتِ کاری صرف تاخیری حربوں پہ اُستوار تھی۔ عدالت کے سوالات نہایت واضح اور متعین تھے۔
٭ کیا لندن فلیٹس کی ملکیت کے ناقابلِ تردید شواہد ملے ہیں؟
٭ کیا کسی بھی حوالے سے ایسی کوئی دستاویز، شہادت یا علامت ملی ہے جس سے ان فلیٹس کی ملکیت کا تعلق نواز شریف سے جوڑا سکے؟
٭ اتنی بڑی تفتیش کے بعد بھی آپ نواز شریف کا تعلق ان فلیٹس سے نہیں جوڑ سکے تو ہم کیسے فرض کر لیں؟
٭ آپ نے آمد ن سے زیادہ اثاثوں کا الزام لگایا ہے لیکن آپ نے نہ اثاثوں کی قیمت کا تعین کیا ہے نہ آمدن کا جائزہ لیا ہے۔ تو پھر یہ الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟
٭ کیا ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت کے بغیر محض شک کی بنیاد پر کسی کو سزا دی جا سکتی ہے؟ کیا شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے یا استغاثہ کو؟
٭ اگر آپ کے بقول یہ اثاثے نواز شریف کے ہیں تو مریم کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟
٭ اگر مریم نے کوئی جعلی کاغذ بنائے ہیں تو کیا یہ نیب کا مقدمہ بنتا ہے؟
٭ کیا بچوں کے دادا کا کوئی کاروبار تھا ؟اور کیا دادا پوتوں کی کفالت نہیں کرسکتا؟
٭ نیب عدالت نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کو کرپشن کے تمام الزامات سے برَی کردیا ہے آپ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی؟
٭ کیا اپیل نہ کر کے آپ نے عملاَ یہ تسلیم نہیں کرلیا کہ نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی؟
کسی سوال کا کوئی شافی جواب نہ آیا۔ نیب کی قانونی ٹیم پر تنقید ناانصافی ہے۔ ان وکلا نے بھرپور محنت کی۔ بڑی مستعدی سے اپنا مقدمہ لڑا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اُن کا اسلحہ خانہ خالی تھا۔ کئی صندوقوں میں بند، ہزاروں صفحات پر مشتمل جے۔ آئی۔ ٹی رپورٹ، بے معنی کاغذوں کا گورستان تھی۔ سوا دو بجے کے لگ بھگ، جج صاحبان نے سماعت تمام کرتے ہوئے کہا کہ تین بجے فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ گمان تھا کہ شاید تاخیر ہوجائے لیکن کوئی ایک شخص بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔
ٹھیک دو بج کر اُنسٹھ منٹ پر، عدالتی عملہ کمرے میں آگیا۔ تین بج رہے تھے کہ دونوں جج صاحبان نے اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد پتھر کی مُورتیاں بن گئے۔ ایک دوسرے کے دِ لوں کی دھڑکنوں اور سانسوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ تب جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ جوں ہی انہوں نے درخواستیں منظور کی جاتی ہیں (Petitions Are Allowed) کے الفاظ کہے۔ کورٹ روم نعروں سے گونج اُٹھا۔ سینیئر مسلم لیگی رہنماﺅں نے سختی سے ” خاموش خاموش “ کی آوازیں اُٹھائیں۔ لیکن اس دوران بیرونی برآمدوں اور راہداریوں سے اُٹھتا، نعروں کا خروش کمرے کی اندرونی فضا کو لپیٹ میں لے چکا تھا۔
جس وقت اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھُلا اور قیدیوں کی گاڑی رینگتی ہوئی باہر نکلی، میں نے ٹی وی آن کیا۔ ایک دکان کا دریچہ وا ہوا۔ ایک عالی دماغ مُبصر، مدبرانہ طمطراق اور پیمبرانہ جلال کے ساتھ کہہ رہا تھا ”فیصلہ جو بھی ہو۔ منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے نا۔ کرپشن تو کی گئی ہے نا۔ ملک تو لوٹا گیا ہے نا۔!“
اسلام آباد ہائی کورٹ سے عارضی ریلیف پانے والے ”سب سے بڑے مجرم“ پر پچھلے ڈیڑھ برس سے کیا گزر رہی ہے؟ آئین، قانون، انصاف اور بنیادی انسانی حقوق جیسا آرائشی و زیبائشی بناﺅ سنگھار رکھنے والی ریاست میں، نواز شریف پر کیا بیتی اور کیوں بیتی ! یہ کہانی المناک بھی ہے اور شرمناک بھی !
(جاری ہے )
فیس بک کمینٹ