ابا جی کی ایک بات مجھے اکثر ستاتی تھی، طبیعت میں اسی جملے نے مجھے ہمیشہ جھکے رہنے کی تلقین کی، تو کبھی کبھی اہلیہ سے ملنگ ہونے کا طعنہ بھی سہنا پڑا، مگر ابا جی آج بھی وہی جملہ کہہ کر آکڑ نکالنے کی جہد میں رہتے ہیں۔ اس کا شاہی لائف سٹائل ہے، پیدا ئشی آکڑ ہے، پتا نہیں کس پر گیا ہے، ’بیٹا جھک کے رہا کر اور شکر کیا کر‘۔شروع شروع میں تو اس جملے سے چڑ ہوتی تھی، مگر پھر وقت کے ساتھ جب زندگی میں ٹھہراﺅ آیا، تو برانڈز کی دوڑ سے باہر آگیا، گاڑیوں ، برانڈڈ جوتوں، کپڑوں ہر چیز کے لیے نخرہ کم ہوگیا اور آہستہ آہستہ کسی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر چاول چنے یا نا ن چنے کھانے میں لطف آنے لگا۔یہ طعنہ تربیت کا ایسا حصہ بننے لگا کہ گھر کے ڈرائیور، مالی سے لے کر ہر شخص کو سر کہہ کر مخاطب کرنے کی عادت ہوگئی۔کوئی کہیں زیادتی کرتا،اونچی آواز میں مخاطب کرتا تو ٹھہراﺅ آگیا، حتی کہ ہاسٹل میں جن باتوں پر دست بہ گریباں ہونے کی عادت تھی ،ان سب باتوں کے لیے ایک ایسی مسکراہٹ چہرے ابدی ہوگئی ، میری زندگی بدل گئی۔زندگی کی تین دہائیوں مکمل ہونے سے پہلے خود کو بابا محسوس کرنے لگے، خواتین کے لیے محترمہ، بہن، Mam جیسے الفاظ زبان کے گوشت میں دھنس گئے ، چھوٹے بڑے ہر جونئیر کو بچے کہہ کر مخاطب کرنے کی عادت ہوگئی۔یہ بڑے گھر میں پیدا ہونے والے، پڑھے لکھے ماں باپ کے بگڑے ہوئے برگربچے کی 180 کے زاویے پر تبدیلی تھی، ایک جملہ’ بیٹا جھک کے رہا کر اور شکر کیا کر‘ نے مجھے بار بار انسان ہونے کا احساس دلایا اور تکبر، گھمنڈ کی انسانی جبلت کے خدا بننے سے روکے رکھا۔یہ تبدیلی کیا تھی اس کا احساس مجھے وقت کے ساتھ ان لوگوں کو دیکھ کر ہونے لگا جو اپنے تکبر کی آبیاری میں اپنا بڑے سے بڑا نقصان بھی ہنس کر کرلیتے تھے۔ میں ریڑھی سے پانچ سو کی شاہی جیکٹ شان سے پہننے لگا اور میرے سامنے اسی طرز کی ہزاروں کی جیکٹ پہن کر لوگ آتے اور فخر سے کسی بڑے برانڈ کا نام لیتے اور دل میں صرف ایک جملہ گونجتا،’بیٹا جھک کے رہا کر اور شکر کیا کر‘۔ایسے میں ہندو فوج کی سپہ سالاریا ’ سینا پتی‘ کا سوات کے ایک قبیلے پر حملہ یاد آگیا ۔انسان کی رگوں میں دوڑنے والا غرور ،صرف ایک مہنگی برانڈ کی جیکٹ سے نکل کر ،اس کو ملنے والی طاقت کے ساتھ پروان حاصل کرلے تو کیا قیامت ڈھاسکتا ہے، سینا پتی اس تاریخ کی بدترین مثال تھی۔220 یا 240 قبل مسیح میں ہمارے خطے میں گندھارا حکمرانی تھی، تب سوات کے قریب بدھوﺅں کی ایک بستی تھی اور وہ بڑے بھلے لوگ تھے۔ جیسے بدھ لوگ عموما ہوا کرتے ہیں۔ ان پر سینا پتی کی ہندو راج دھانی حکومت نے حملہ کردیا۔ بدھوﺅں بیچاروں نے اپنی فصیل کے دروازے بند کردیے اور وہ بیچارے اندر چھپ کے بیٹھ گئے۔ ہندو فوج نے اپنے تیر،ترکش اور اگن بم اندر پھینکے تو بدھوﺅں کے بزرگوں نے باہر جاکر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ بزرگ باہر نکلے اور سینا پتی سے پوچھا، مہارانی آپ کیا چاہتی ہیں، وہ بولی میں جنگ چاہتی ہوں ۔ بزرگ بولے ہم لڑنا نہیں چاہتے ،آپ جو چاہتی ہیں، ہم سے لے سکتی ہیں۔ وہ بولی نہیں مجھے تمہاری نسل ختم کرنی ہے، تمہاری بستی پر قبضہ کرنا ہے،اس پر بدھ بولے ،آپ ہمیں کچھ وقت دیں،ہم شرافت سے سب آپ کے حوالے کردیں گے۔اس پر سینا پتی کچھ وقت دینے کو راضی ہوگئی۔وہ بزرگ پلٹے اور بستی کے لوگوں سے فوری بستی خالی کرنے کو کہا، لوگ بستی سے نکلنے لگے، ساتھ ساتھ جاتے ہوئے فوج کو سلام کرتے جاتے کہ بھائی آپ کے حکم پر ہم جارہے ہیں، آپ بستی پر قبضہ کرلیں۔کچھ وقت سینا پتی یہ دیکھتی رہی، مگر پھر اس کے اندر برسوں پالا گیا، طاقت ، غرور، تکبر کا سانپ پھن پھلانے لگا،،وہ چیخی یہ تم کیا کررہے ہو، بزرگ بولے مہارانی ہماری بستی سامان سے بھری پڑی ہے،یہ اپنا کچھ نہیں لے جارہے،آپ چاہیں تو قبضہ کر سکتی ہیں۔ سینا پتی اس پر سیخ پا ہوگئی اور کہنے لگی، تم مجھے کمزور سمجھتے ہو کہ میں اتنی طاقت ہوتے ہوئے بھی ، تم لوگوں کو زندہ چھوڑ دوں، تاریخ یاد رکھے گی کہ مہارانی سینا پتی نے مرداروں پر حملہ کیا تھا، مجھے تم سے لڑنا ہے، تم میرا گھمنڈ نہیں توڑ سکتے، یہ کہہ کر وہ اپنی فوج سمیت ، بدھوﺅں کی بستی پر ٹوٹ پڑی اور سب ختم کردیا۔تاریخ کے روز ازل سے آج تک، چنگیز خان سے لے کر صدام حسین تک، جتنے بھی کھوپڑیوں کے پہاڑ کھڑے ہوئے ،ان کے پیچھے صرف ،ایسی ہی تربیت کا ہاتھ تھا ،جو سینا پتی کی گئی ،یا شاید وہ، جو آج کے معاشرے کا رئیس اپنی اولاد کے تکبر کی کرتا ہے۔شہر کا مہنگا ترین انگلش میڈیم سکول، غربت کے ہاتھوں زندگی کو سسکتا ایک سہما ڈرائیور ،جو اپنی عمر سے تین دہائی چھوٹے بچے کے لیے دروازہ کھولتا ہے، بچہ رعونت کی تصویر بنے مہنگی ترین کار سے نیچے قدم رکھتا ہے اور پھر اس کا برانڈڈ بستہ اس کی جماعت تک ساتھ جاتا ہے اور اس سارے عمل میں وہ غریب اس خوف میں رہتا ہے کہ کہیں اس کی عمر سے چار،پانچ دہائی چھوٹے، اس بادشاہ کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔غریب کی غربت، اپنی جگہ ، مگر سینا پتی کی طرح، اپنے تکبر ، غرور اور گھمنڈ کی انسانی جبلت کو ملتا کسی غریب کی ذلت کا خون ،اس بچے کو اس معاشرے کا کیسا کل دیگا،یہ اس بچے کو ملنے والی طاقت بتائے گی۔اگر وہ طاقت ،صرف چند ذاتوں تک محدود رہی تو شائد غرور کی تلوار کے شکار، کسی خاص دائرے کے حصار میں رہیں گے، مگر اگر یہ طاقت سینا پتی کی طرح پلتی ،کسی بڑے مقام پر پہنچ گئی ،تو اس کا تکبر ،غرور اور گھمنڈ بھی اتنا ہی بڑا ہوگا،اور شاید چنگیزیت سے بھی اسے نہ روک پائے۔بیٹا جھک کے رہا کر اور شکر کیا کر ، درحقیقت یہ ایک امتزاج کی سی کیفیت ہے، یہ جملہ اندر سے میرا غرور نکال کر ، مجھے بابا بنا رہا ہے۔ رومی اور تبریزی کے رشتے میں جو کچھ بھی تھا، اس استاد شاگرد کے رشتے کا تمام حسن ،صرف ایک ہی مقام پر آکر ختم ہوتا تھا۔ تبریزی نے رومی کے اندر سے اس کی انسانی جبلت کا تکبر نکال کر ،اس کی میں ختم کردی تھی، ان نے اسے درویش بنایا تھا، تبریزی نے رومی کو خود خدا بننے کی بجائے، ایک ایسے مٹی کے پتلے کا احساس دلایا تھا کہ جسے فقط خدا کی محبت کے سامنے فنا ہونا تھا۔یہی شاید انسان کی پیدائش کا اصل مقصد بھی ہے۔سینا پتی اور رومی ، 180 کے انسانی جبلت کے زاویوں پر تربیت دیے گئے ،صرف دو انسانوں کا نام ہے۔ایک تاریخ میں اپنے تکبر اور گھمنڈ کی آگ میں کئی معصوموں کی جان لے گئی، کئی لیٹر انسانی خون بھی،اس تکبر کی آبیاری نہ کرسکااور دوسری طرف، اپنی میں کو مٹانے اور اپنے تکبر کا گلہ گھونٹنے والے انسان کو خدا کی قربت نصیب ہوگئی، وہ دنیا میں بھی امر ہوگیا اور اس کی آخرت بھی اسے انبیاءکی صف میں کھڑا کر گئی۔ انگریزی زبان کا جملہ ہے، Charity Begins at Home، یعنی کے انسانی فلاح کا کام آپ کے گھر کی دہلیز سے شروع ہوتا ہے۔ انسانوں کے لیے معاشرے میں سینا پتی کی طرح انسانی تکبر کی آبیاری کرکے گھمنڈ سے بھرے افراد چھوڑنا یا پھر رومی کی طرح اپنی میں مٹائے ،انسانی فلاح کے لیے اپنا سب کچھ مٹانے والے ایدھی معاشرے کے حوالے کرنا بھی Charity ہے۔ میرے ذات کے اندر سے ابا جی کی طعنوں نے صرف برانڈ کا تکبر نکالا اور میری زندگی بدل گئی ، اگر پورے معاشرے اور آنے والی نسلوں کے اندر سے سارے کا سارا شاہی لائف سٹائل نکل گیا تو ایک درویش معاشرے کی اٹھان کیا ہوگی؟اس پر شاید عرش کو بھی فخر ہوگا۔ شاید تب، کسی کالی گاڑی میں بیٹھے، انسانی تکبر کے آگے پیچھے لمبے قافلے کے لیے لگے کسی روٹ میں پھنسی کسی ٹوٹی ایمبولنس کے اندر کوئی غریب دم نہیں توڑے گا۔ وہ غریب شاید وہ ڈرائیور ہی کیوں نہ ہو کہ جس نے کبھی اس کالی گاڑی میں بیٹھے شخص کے مہنگے انگلش میڈیم سکول کے باہر ،اس کے لیے برانڈڈ گاڑی کا دروازہ کھولا تھا،اور اس کے اسی تکبر کی آبیاری کے گناہ میں اپنی غربت کے ہاتھوں شریک رہا تھا اور اس بات کو ترستا رہا تھا کہ معاشرہ یہ جملہ اس کی زندگی میں داخل کردے’ بیٹا جھک کے رہا کر اور شکر کیا کر‘۔
فیس بک کمینٹ