دو باتیں تو طے ہو گئیں۔ ایک یہ کہ اس بار بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور شسما سوراج کے درمیان کانٹے کا گالم گلوچی ملاکھڑا عالمی برادری کو منورنجن اپلپد کروائے گا۔دوسری بات یہ طے ہوئی کہ اگلے برس بھارتی لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے بھول جائیں کہ بھارت اور پاکستان میں دو طرفہ بات چیت کا کوئی امکان ہے۔کئی برس پہلے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات تب منسوخ ہوئے تھے جب بھارت کو اس پر غصہ آ گیا کہ دلی کے پاکستانی سفارتخانے میں حریت کانفرنس کے رہنماؤں کو بات چیت سے پہلے چائے کی دعوت کا نیوتا کیوں دیا گیا۔ اس کے بعد اڑی میں بھارتی فوجی چھاؤنی پر حملے نے پکی مہر لگا دی۔تازہ پاکستانی دعوت نامہ پہلے قبول اور پھر رد کرنے کا سبب بظاہر برہان وانی اور دیگر کشمیریوں کی یاد میں چوبیس جولائی کو جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹ بنے۔ حالانکہ جب یہ ٹکٹ جاری ہوئے تب عمران حکومت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔
ان ٹکٹوں کے اجرا کے کئی روز بعد مودی صاحب نے عمران خان کو وزیرِ اعظم بننے پر مبارک باد بھی دی، نیویارک میں سائڈ لائن پر وزرائے خارجہ ملاقات کی پاکستانی تجویز بھی سوئیکار کر لی۔ پھر اچانک یہ یادگاری ٹکٹ جاری ہونے کے دو ماہ بعد ولن ہو گئے ’ٹھہرو! یہ شادی نہیں ہو سکتی ہا ہا ہا ہا۔‘نئی پاکستانی حکومت نے جی ایچ کیو کو اعتماد میں لیتے ہوئے اب تک تین بار بھارت سے بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلی بار عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے قوم سے خطاب میں ایک قدم کے جواب میں دو قدم آگے بڑھنے کی پیش کش کی۔ اس پیش کش کو اور پرکشش بنانے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے کرتار پور گوردوارے کے لیے یاترا راستہ کھولنے کی بھی تجویز بلند کی گئی۔دوسری بار اعلیٰ بھارتی قیادت سے ٹیلی فونک رابطے سے عمران حکومت نے یہ نتیجہ اخد کیا کہ بھارت بات چیت کے لیے تیار ہے مگر بھارت نے فوراً تصیح کی کہ فون کال بات چیت کے لیے نہیں بلکہ رسمی خیرسگالی کے طور پر ہوئی تھی۔تیسری بار نیویارک میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ممکنہ ملاقات کو پاکستان نے مذاکرات کی بحالی کے طور پر دیکھا مگر بھارت نے پھر تصحیح کی کہ بھائی ہم صرف آپ کے کہنے پر ملاقات کر رہے ہیں اسے باضابطہ بات چیت کی بحالی نہ سمجھا جائے۔ مگر پاکستانی حکومت شاید یہ پیغام بھی پوری طرح نہ سمجھ پائی۔ لہٰذا بھارت کو پھر کھل کے کہنا پڑا کہ بات چیت کی پیش کش کے پردے میں پاکستان کے ’مذموم عزائم‘ سامنے آ گئے ہیں۔ تیری تو ۔۔۔۔
اس موقع پر میں وہ گھسا پٹا قصہ سنانا نہیں چاہ رہا کہ کمہار جب اپنے خوشحال پڑھے لکھے بیٹے کا رشتہ لے کر نمبردار کے پاس گیا تو نمبردار پے سکتہ طاری ہو گیا۔ کمہار نے حالات کی نزاکت نہ سمجھی اور پھر کہا چوہدری صاحب میں جواب کا منتظر ہوں۔نمبردار نے مشٹنڈوں کو اشارہ کیا اور وہ بچارے کمہار پر پل پڑے۔ کمہار بڑی مشکل سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل کے پھر پلٹا ’تے فیر چوہدری صاحب میں ایس رشتے توں انکار سمجھاں؟‘
کہا تھا کس نے تجھے حالِ دل سنانے جا
فراز اور وہاں آبرو گنوانے جا
اگر یہ درست ہے کہ پاکستان میں خارجہ و علاقائی پالیسی بالخصوص افغانستان و انڈیا سے متعلق حکمتِ عملی کا پتا بھی فوج کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا تو دوسری جانب سے جو لہجہ استعمال ہو رہا ہے اسے سن کر لگتا ہے کہ ہو نہ ہو بھارت کی پاکستان پالیسی اس وقت از قسمِ ٹی وی اینکرز ارنب گوسوامی کی مشاورت سے بن رہی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ