مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ صابر لودھی صاحب ابو کے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے استاد رہے ہیں- میرے ساتھ انتہائی شفقت کرتے تھے اور ابو کے ساتھ تو میڈم فرخندہ لودھی اور لودھی صاحب کا بڑا تعلق رہا- میں نے ایک دفعہ کالج میں بزم اقبال کے تحت ایک افسانہ سنایا تو میڈم کی صدارت تھی شرارت سے مجھے کہا تمہارے ابا کو پتہ ہے کہ تم افسانے لکھتے ہو تو میں نے نفی میں سر ہلایا تو ہنستے ہوئے کہا بتانا بھی نہ ۔
کیسے پیارے لوگ تھے مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میڈم کی وفات کے بعد لودھی صاحب نے میڈم کا پورا کلیات مرتب کیا اور کتاب سرائے نے شائع کیا۔ کسی میاں بیوی میں میری نظر میں لودھی صاحب اور میڈم سے بڑھ کر محبت ممکن نہیں ۔ ان کی اولاد نہ تھی لیکن ان کی معنوی اولاد نے کبھی انھیں تنہا نہ چھوڑا لودھی صاحب نے کوئی ایم فل یا PHD وغیرہ نہیں کیے تھے لیکن ان سب پر بھاری تھے ، ہمارے معاشرے کا المیہ کہ ان کی وفات پر واپڈا ٹاون سوسائٹی نے ان کے لیے قبر کی جگہ دینے سے انکار کر دیاکہ وہ سوسائٹی کے ممبر نہیں حالانکہ ان کا واپڈا ٹاؤ ن کا گھران کا ملکیتی تھا لیکن انہوں نے اپنے لے پالک بیٹے کے نام کیا تھا اور وہ اس لڑکے کے باپ نہ تھے۔ اسحاق ڈار ان دنوں وفاقی وزیر تھے ان کے شاگرد تھے انہوں نے یہ مسئلہ حل کرایا ۔
فیس بک کمینٹ