اسلام آباد ہائی کورٹ میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے سینیئر اینکر ارشد شریف کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چینل کے ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کر رہے ہیں۔
جمعے کے روز اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ ’ارشد شریف کی پٹیشن کاغذ کا ایک ٹکڑا تھی مگر ہم نے سنا۔ آپ کہتے ہیں اس رات عدالت کیوں کھلی، کیا آپ کا چینل آئین کو عدالت سے بہتر سمجھتا ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ معاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے کا ہو تو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی۔
واضح رہے کہ جمعرات کو صحافی ارشد شریف کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کو ارشد شریف سمیت کسی بھی صحافی کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے ڈی جی ایف اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
جمعے کو دوران سماعت ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے ارشد شریف کے خلاف نہ تو کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کوئی انکوائری کی ہے جبکہ اس حوالے سے تحریری وضاحت بھی جاری کر دی گئی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اے آر وائی نیوز پر کاشف عباسی کے پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدری سے پوچھا کہ ’کیا آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا؟‘
’پروگرام میں حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا، انھوں نے کہا کہ عدالت رات کو کیوں کھلی؟ عدالت سے عوام کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
’آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کر رہے ہیں۔ اس عدالت کا بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟ اگر رات تین بجے کوئی ارشد شریف کو اٹھائے تو کیا عدالت کیس نہ سنے؟‘چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ عدالت نے ایک نہیں بلکہ عدالتی اوقات کار کے بعد بہت سی درخواستیں سنی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی بیانیے کے لیے اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت کسی کے پریشر میں نہیں آتی اور نہ ہی آئے گی۔ ’بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلیں گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہو گا۔‘
عدالت نے دوران سماعت اے آر وائی کے رپورٹر سے سوال کیا کہ آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے ہیں؟ اے آروائی نے لاپتہ افراد کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے؟چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ آئین کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلے گی، ان بیانات سے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر عید کے دنوں میں بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی۔‘
سینیئر اینکر ارشد شریف کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت 12 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کے روز ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل (ارشد شریف) کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی۔
درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے ہیں کیوںکہ سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُن کے گھر اور خاندان کی نگرانی کر رہے ہیں۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ارشد شریف کا آزادی اظہار کا آئینی حق سلب کیا جا رہا ہے جب کہ ان کے موکل (ارشد شریف) کے خلاف کرمنل کیسز بنائے جانے سے متعلق معلومات پر ایف آئی اے جواب نہیں دے رہی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )