معروف انشائیہ نگار اور ادیب محمد اسلام تبسم کا بچپن مشرقی پاکستان میں گزرا ۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہی نہیں اس المیئے سے براہ راست متاثر بھی ہوئے ۔ انہوں نے ۔ خوں ریز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر پناہ گزین کے طور پر بھارت چلے گئے ۔ پانچ سال بعد وہ پاکستان آئے اور ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ “گِردو پیش‘‘ میں ان کی زیرِ طبع کتاب ‘‘ دوسری ہجرت‘‘ قسط وار شائع کی جا رہی ہے یہ سرکاری ملازمیں کی تحریر کردہ کہانیوں اور سرکاری رپورٹوں سے زیادہ اہم دستاویز ہے ۔ رضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے، لیکن اس کی جدائی کا زخم اب بھی تازہ ہے،اس سانحہ کو بیتے نصف صدی ہونے کو ہے لیکن ا یسا لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو ،اس طویل عرصے میں کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا جب مجھے اس کی یاد نہ آئی ہو،بلا شبہ یہ ہماری تاریخ کا وہ المیہ ہے جسے کوئی بھی محب وطن کبھی فرا موش نہیں کر سکتا۔مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا اور اس کے ذمہ دار کون تھے ، یہ بحث اب خاصی پرانی ہو چکی ہے ،لیکن اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ یہ سانحہ اُس وقت کے حکمرانوں کی نا اہلی اور ہٹ دھڑمی کی وجہ سے پیش آیا۔اس سانحہ کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے دو لخت ہونے پر سکھ کا سانس لیاکہ چلو بنگالیوں سے جان چھوٹی۔آپ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کے اخبارات اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ایسی کوئی خبر نہیں ملے گی جس میں کسی سیاسی، مذہبی یاسماجی تنظیم کی طرف سے اس عظیم سانحہ کی مذمت کی گئی ہو ،یااس کے ذمہ دار افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر بھارتی جنرل اورڑا کا نہ صرف استقبال کیا بلکہ اُسے گارڈ آف آرنربھی پیش کیا اور اپنی ذلت پر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ اُسے فحش لطیفے سناتا رہالیکن اس جنرل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، بلکہ مرنے کے بعد اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔اس سانحہ کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سر براہی میں کمیشن قائم کیا گیا، اس کمیشن نے جو رپورٹ حکومت کو پیش کی اسے ایک عرصے تک عوام سے پوشیدہ رکھا گیا،جب اس رپورٹ کے کچھ حصے انڈیا ٹو ڈے میں شائع ہوئے تو ملک بھر میں تہلکہ مچ گیا ،اور یہ معمہ اب تک حل نہیں ہو پایاکہ اتنی خفیہ اور حساس رپورٹ بھارت تک کیسے پہنچی۔پاکستان میں اس کی اشاعت پرویز مشرف کے دور میں ہوئی لیکن رپورٹ کے بعض حساس حصوں کو عوام سے پوشیدہ رکھا گیا۔
سقوطِ ڈھاکہ کی بنیادی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ1970ءکے الیکشن میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اس نے مشرقی پاکستان میں 171میں سے 169نشستیں حاصِل کی تھیں جب کہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 140 میں سے 84نشستیں حاصِل کی تھیں ، اُس وقت کے فوجی حکمرانوں نے اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔یکم مارچ 1971ءکو بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو یہ کہہ کر ملتوی کر دیا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مغربی پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں نے اس میں شرکت سے انکارکردیا ہے۔چاہئے تویہ تھا کہ فوری طور پر نئی تاریخ کا اعلان کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور جب شیخ مجیب نے از خود ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ جو بھی ڈھاکہ گیا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعض حلقوں کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے بلکہ ایک موقع پر امریکی سفیر نے یحیٰ خان سے یہ کہا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے آپ فوراً مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں تو یحیٰ خان یہ جواب دیا کہ "میں غدار سے بات نہیں کر سکتا”اگر مغربی پاکستان کے سیاست دان 1970میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیتے اور اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کر دیتے تو شاید مشرقی پاکستان ہم سے کبھی جدا نہ ہوتا۔
شیخ مجیب اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ پاکستان کے حکمران اور سیاست دان اُسے کبھی بھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے اس لئے اُس نے23 مارچ1971ءکوتحریک چلانے کا اعلان کر دیااور 25مارچ1971ءکو دھان منڈی ڈھاکہ میںشیخ مجیب کے گھر عوامی لیگ کا اجلاس ہوا ۔ اس موقع پر اُس نے اپنے طور پر بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنی کابینہ تشکیل دے دی ، اُسی رات شیخ مجیب کو گرفتار کر کے پہلے ڈھاکہ میںرکھا گیا پھر کراچی منتقل کر دیا گیا۔شیخ مجیب کی گرفتاری کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اُردو بولنے والوں کاجنہیں بہاری کہا جاتا تھا اُن کا قتل عام ہوا ،اُن کے گھروں اور دُکانوں کو لوٹنے کے بعد جلا دیا جاتا ۔یہ تمام ظلم و ستم صرف اُردو بولنے والے مسلمانوں پر ڈھایا گیا وہاں بڑی تعداد میں اُردو بولنے والے ہندو بھی آباد تھے جنہیں کچھ نہیںکہا گیاکیوں کہ ان کی ہمدردیاںعوامی لیگ کے ساتھ تھیں ۔ قتل وغارت اور لوٹ مار کرنے والوں میں مقامی بنگالی ہی نہیں بلکہ ان میں بھارت سے آئے ہوئے بنگالی ہندو بھی شامل تھے اور ان کی بڑی تعدادآج بھی بہاریوں کے چھوڑے ہوئے مکانات اور دکانوں قابض ہے۔اس قتل وغارت کا ایک ایک منظر آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے اور جب اس سانحہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک دم سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔بلوائیوں نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کیا لیکن ہم پہلے ہی اپناگھر چھوڑ چکے تھے، راستے میں ہم پر بھی فائرنگ ہوئی لیکن خوش قسمتی سے اُن کا نشانہ خطا ہو گیا اور گولی دیوار پر جا لگی، اس طرح ہماری جان بچ گئی۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی وجہ الیکشن میں کامیابی کے بعد عوامی لیگ کو حکومت کا موقع نہ دینا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں1971ءسے بہت پہلے علیحدگی کی تحریک شروع ہو چکی تھی اور اشتہارات،پمفلٹ اور اخبارات کے ذریعے قوم پرستی کے جذبات کو اُبھارا جا رہا تھا،سیاسی جلسوں میں مسلسل مغربی پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی جارہی تھی ۔اس قسم کی تقریریں سن کر عوام جوش میں آکر "جئے بانگلہ”اور "آزاد بانگلہ”کے نعرے لگاتے۔”آزاد بانگلہ” کے نام سے ایک ر وز نامہ شائع ہو رہاتھا اور یحیٰ خان کے دور حکومت میں "جئے بانگلہ”کے نام سے بنائی گئی فلم ڈھاکہ کے سنیما گھروں میں دکھائی جارہی تھی جس میں فوج کو بنگالیوں پر ظلم وستم ڈھاتے دکھا یا گیا تھا۔ہمیں یہ بات اب تسلیم کر لینی چاہئے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم کا مسلسل استحصال ہو رہا تھا ۔ مغربی پاکستان سے جانے والے والے آرمی اور سول بیوروکریٹ وہاں کے عوام کو اپنی رعایا تصور کرتے اوراُن سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا تھا۔
میجر جنرل(ر) خادم حسین راجہ مرحوم جو 1971ءمیں ڈھاکہ میں 14ڈویژن کے کمانڈ افسر تھے اور بعد میں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر بھی رہے اُنہوںنے اپنی آپ بیتی "اپنے ہی ملک میں اجنبی” (A stranger in my own country)میں ایسے کئی واقعات بیان کئے ہیںجو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مشرقی پاکستان میں تعینات جرنیلوں نے تدّبُروحکمت سے کام لینے کی بجائے د ھونس اور طاقت کے استعمال کو ضروری سمجھا جس سے حالا ت مزید خراب ہو گئے۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ۔”جنرل ٹکا خان کے بعدجب لفیٹینٹ جنرل اے کے نیازی مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر بنے تو پہلے ہی ملٹری اجلاس میں وہ مغلظات بکتے ہوئے بولے "میں اس حرامزادی قوم کی نسل بگاڑ دوں گا۔وہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔”مزید براں اُنہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنی فوج بنگالی عورتوں پر چھوڑ دیں گے۔جنرل نیازی کی باتیں سن کر ملٹری روم میں جیسے سب فوجی افسروں کو سانپ سونگھ گیا۔بعد ازاں اُنہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا”ابھی تم مجھے اپنی گرل فرینڈز کے فون نمبردے دو”اس ملٹری اجلاس میں ایک بنگالی فوجی افسر میجر مشتاق بھی شریک تھا ۔وہ بعد میں غسل خانے میں گیا اور اپنے پستول سے سر میںگولی مار کر خودکشی کر لی ۔ (جاری ہے )
فیس بک کمینٹ