معروف انشائیہ نگار اور ادیب محمد اسلام تبسم کا بچپن مشرقی پاکستان میں گزرا ۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہی نہیں اس المیئے سے براہ راست متاثر بھی ہوئے ۔ انہوں نے ۔ خوں ریز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر پناہ گزین کے طور پر بھارت چلے گئے ۔ پانچ سال بعد وہ پاکستان آئے اور ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ “گِردو پیش‘‘ میں ان کی زیر طبع کتاب ‘‘ دوسری ہجرت‘‘ قسط وار شائع کی جا رہی ہے یہ سرکاری ملازمیں کی تحریر کردہ کہانیوں اور سرکاری رپورٹوں سے زیادہ اہم دستاویز ہے ۔ رضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابولکلام آزاد نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام میں سوائے مذہب کے کوئی اور چیز مشترک نہیں اور صرف مذہب کی بنیاد پر اُنہیں ایک قوم نہیں بنایا جاسکتا۔مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان تقریباًایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور ملک کے دونوں حصوں کو ملانے کے لئے زمینی راستہ کوئی نہیں تھا۔ملک کے دونوں حصوں کو ملانے کا واحد ذریعہ پی آئی اے کی سروس تھی جس کا کرایہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا،جس کی وجہ سے دونوںحصوں کے عوام نہ تو ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے کی زبان، تہذیب اورثقافت کو سمجھ سکتے تھے اسی وجہ سے دونوں حصّوں کے عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیااور ایک دوسرے سے بہت سی غلط باتیں منسوب ہو گئیں مغربی پاکستان کے لوگ بنگالیوں کو ہمیشہ تہذیب سے عاری مچھلی کھانے اور دھوتی بنیان پہننے والی قوم سمجھتے رہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے درمیان جو فاصلہ تھا اُسے دور کرنے میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہیروز بھی مختلف تھے،وہاں کے عوام نواب سراج اُلدولہ ،رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام اور مولوی فضل الحق کو اپنا ہیرو مانتے تھے۔اکثر گھروں اوردُکانوں میں انہی کی تصاویر لگی ہوتی تھیں ،ڈھاکہ ریڈیو سے رابندر ناتھ ٹیگوراور قاضی نذر الاسلام کا کلام کثرت سے نشر کیا جاتا تھا جب کہ اقبال اور غالب کا کلام بہت ہی کم نشر ہوتا تھا ۔ٹیگور کی شاعری اور افسانے نصاب میںشامل تھے ۔میںنے چوتھی کلاس کی کتاب میںپہلی مرتبہ ٹیگور کا افسانہ پڑھاتھا۔مشرقی پاکستان میں تمام سرکاری سکول اور کالج بنگلہ میڈیم تھے ۔اُردو میڈیم سکول بہت ہی کم تعداد میں تھے اور ان میں کھاتے پیتے بہاری گھرانوں کے بچے ہی پڑھتے تھے بنگالی بچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی کیوں کہ یہ تمام ادرے پرائیویٹ تھے اور ان کی فیس عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھی۔مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ خاصی تعداد میں تعینات تھے ۔ہندوﺅ ں نے کبھی دِل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔وہ شروع ہی سے پاکستان اور نظریہ¿ پاکستان کے مخالف رہے ۔تعلیمی ادروںمیں تعینات ہندو اساتذہ طلبا کے ذہنوں میں پاکستان اور نظریہ¿ پاکستان کے خلاف زہر گھول رہے تھے ۔ وہ نظریہ¿ پاکستان اور اسلامی اقدار کا کھلم کھلا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ تعلیمی نصاب مرتب کرنے والوں میں ہندو ماہرین تعلیم بھی تھے جن کی کوشش ہوتی تھی کہ نصاب میں کوئی ایسا سبق شامل نہ کیا جائے جس سے طلبا کو حب الوطنی کا درس ملتا ہو۔مشرقی پاکستان کی معاشی بدحالی کی ایک بڑی وجہ وہاں کے تجارت پیشہ ہندو تھے جو اپنی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مشرقی پاکستان میں خرچ کرنے کی بجائے بھارت منتقل کر رہے تھے۔ان کا زیادہ تر کاروبار بھارت میں تھا،سرحدوں پر روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے سمگلنگ عام تھی۔سرحدوں پر پابندی سخت نہ ہونے کی وجہ سے ہی مکتی باہنی وجود میں آئی۔بھارت کے سرحدی علاقوں میں بیسیوں ایسے کیمپ قائم تھے جہاں نو جوانوں کو تخریب کاری کی تربیت دی جاتی تھی۔یہ تخریب کار مشرقی پاکستان کے حدود میں داخل ہو کر فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرتے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے تھے۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کا تعلیمی نصاب ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔انہیںمرتب کرنے والوں نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ نئی نسل ایک دوسرے کی تاریخ،تہذیب اور ثقافت سے متعارف ہو سکے ،اور اُن کے دل میں ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کا جذبہ پیدا ہو ۔مشرقی پاکستان کے سکولوں میں محمد بن قاسم ، محمد علی جوہر اور سر سیّد احمد خان کے بارے میں نہیں پڑھایا جاتا تھا اسی طرح مغربی پاکستان کے طلبا کو نواب سراج اُلدولہ،رابندر ناتھ ٹیگور قاضی نذر السلام کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ٹیگور کو بنگلہ زبان کا شیکسپئر تسلیم کیا جاتا ہے اور قاضی نذرالاسلام کو قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے اُنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بنگالی قوم میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد جب بنگلہ ادب کی تاریخ مرتب کی جانے لگی تو مرتبین سے کہا گیا کہ بنگلہ ادب کی تاریخ میں رابندر ناتھ ٹیگور کا ذکر شامل نہ کیا جائے اسی طرح 1964ءمیں رابندر ناتھ ٹیگور کی پیدائش کے سو سال مکمل ہونے پر مشرقی پاکستان میں سو سالہ تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جغرافیائی فاصلہ تو تھا ہی لیکن عوام کے دل بھی آپس میں نہیں ملتے تھے جس کے باعث ملک کے دونوں حصوں کے عوم ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمی کے شکار تھے۔ مثلاً مشرقی پاکستان کے عوام سمجھتے تھے کہ پٹ سن اور چاول سے حاصل شدہ تمام تر زرِمبادلہ مشرقی پاکستان پر خرچ ہونے کی بجائے مغربی پاکستان پر خرچ ہو رہاہے ۔اُن کا کہنا تھا کہ تمام کارخانے اور فیکٹریاں مغربی پاکستان میں لگائی جا رہی ہیں،جس سے مغربی پاکستان کے عوام کو تو روزگار میسّرآرہے ہیں لیکن مشرقی پاکستان میں غربت اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کیوںکہ مشرقی پاکستا ن میں فیکٹریوں کی تعداد بہت کم تھی اور روزگار کے دوسرے ذرائع بھی میّسر نہ تھے۔جس کی وجہ سے بیروزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ جب کہ مزدور اور کسان خستہ حال زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ان کے جسم پر پورا لباس نہیں ہوتا تھا۔اس کے برعکس مغربی پاکستان میں غریبوں اور مزدوروں کی حالت کافی بہتر تھی ۔ یہاں روزگار کے کافی ذرائع میّسر تھے اور مزدور کی اُجرت بھی مشرقی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تھی۔یہ تضاد بھی معاشرتی زندگی میں زہر گھول رہا تھااور عوام میں محرومی بڑھتی جا رہی تھی۔
سادگی اور انکساری بنگال کا کلچر رہا ہے وہاں اعلیٰ سرکاری افسر تھری پیس سوٹ کی جگہ سادہ اور عام لباس پہنتے اور عام آدمی کی طرح سائیکل پر دفتر آتے جاتے تھے۔ یہ سرکاری افسر جب وہاں سے تبدیل ہو کر جب مغربی پاکستان آتے تو یہاں اُن کی سادگی کا مذاق اُڑایا جاتا،جب کہ وہ یہاں کے سرکاری افسران کے شاہانہ طرز ِزندگی کودیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے۔اسی طرح مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والااعلیٰ سرکاری افسر جب تبدیل ہو کر مشرقی پاکستان جاتا تووہ وہاں کے عوام کے ساتھ اس طرح پیش آتاجیسے فاتح مفتوح کے ساتھ پیش آتا ہے۔افسران کے اس روئیے سے بھی بنگالیوں کے دل میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور وہ بر ملا کہتے تھے کہ ہم انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پنجابیوں کے غلام بن گئے ہیں۔
مشرقی پاکستان میں تین طرح کے لوگ بستے تھے، پہلے نمبر پر یہاں کے مقامی باشندے تھے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے ان میں زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے تھے باقی تجارت اور ملازمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔دوسرے نمبر پر وہ لوگ تھے جو مغربی بنگال،آسام،بہار اور یو پی سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔مغربی بنگال سے آنے والے اور مقامی لوگوںکے کلچر،لباس اور زبان میں کوئی فرق نہ تھا۔مغربی بنگال سے ہجرت کر کے آنے والے خود کو مہاجر کہلوانے کی بجائے بنگالی کہلوانا پسندکرتے تھے اس لئے ان کی شناخت مشکل تھی۔ اسی طرح آسام سے آنے والے بھی مقامی لوگوں میں گھل مل گئے تھے اور خود کو بنگالی کہلواتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں بسنے والے ہندو اور بنگالی مسلمانوں میں سوائے مذہب کے کوئی اور فرق نہ تھا۔دونوں کا لباس ، رہن سہن اور کلچر ایک جیسا تھا۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ