” کچھ لوگوں کے دماغ بھی کباڑ خانے کی طرح ہوتے ہیں ۔۔جس طرح کباڑ خانے میں ہر نئی چیز کا داخلہ منع ہوتا ہے بالکل ایسے ہی کوئی نئی بات۔۔۔ نئی سوچ ان کے دماغ میں نہیں سماتی کیوں کہ ایسے لوگ اپنے ذہن کے دریچے ہمیشہ بند رکھتے ہیں ۔۔ان کی سوچ بھی کباڑیوں کی طرح ہوتی ہے جو ہر کام میں اپنا فائدہ سوچتے ہیں اور ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں اگر اس طرح کے کباڑیے دنیا میں نہ ہوں تو شاید یہ دنیا جنت بن جائے۔۔۔۔۔اگر دلوں سے نفرت جھوٹ فریب اور مفاد پرستی کے کاٹھ کباڑ کو باہر نکال کر پھینک دیا جائے تو ہر طرف امن ہوگا اور ہر چہرے پر مسکراہٹ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میرے خیال میں ہر گلاب چہرہ اورستارہ آنکھیں روشن حال اورحسین مستقبل کے ترانے لکھیں گی ۔مگر ذ را ٹھہریے تصور کی دنیا سے حقیقت میں آئیے ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجیے ۔ ۔۔۔۔ ۔پھر آگے بڑھتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا فرمایا ؟؟؟؟؟۔۔۔
تبدیلی یا آز ادی کے نام پر وقت بربادی مارچ میں ۔۔۔۔۔ارے نہیں صاحبو !!!! بہت ہی ہو گیا کھیل ۔۔۔۔کھل واڑ ۔۔۔۔ملک کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔قطری خط ہوں یا میمو گیٹ ۔۔۔۔خط "سیتا وائٹ "ہوں یا خط سازشی” وائٹ ” ۔۔۔سب بھاڑ میں جھونکیے ۔۔۔۔اور چلیے ۔۔۔۔۔”غنڈوں کی سیاسی بصیرت "جاننے کے لیے ایک کباڑ خانے میں موجود کچھ حسینوں کے خطوط کی تلاش میں۔۔۔ جہاں موجود ہیں کچھ تخلیقی خزینے ۔۔۔۔پڑھیے ۔۔۔۔۔کتاب کا صفحہ نمبر 84۔۔۔۔جہاں ملتان کے نامور انشائیہ نگار منفرد تخلیقی مضامین کے مصنف جناب محمد اسلام تبسم لکھتے ہیں بعنوان ۔۔۔۔۔۔”غنڈوں کی سیاسی بصیرت“ ۔
۔۔ ” آپ اس غیر شریفانہ عنوان پر یقیناً حیران ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک غنڈہ چھپا بیٹھا ہے جو اسے جھوٹ فریب نفرت اور لالچ پر اکساتا ہے جب آدمی کے اندر کا غنڈہ کمزور پڑجاتا ہے تو باہر کے غنڈوں کو مدد کے لیے بلالیتا ہے ۔۔۔۔جو ہر شریف آدمی کا جینا دشوار کردیتے ہیں ۔۔۔۔ان سے کسی کی پگڑی محفوظ نہیں رہتی ۔۔۔۔سوائے اونچے شملے والی پگڑیوں کے ۔۔۔۔اونچے شملے والی پگڑیوں پر کوئی آنچ نہیں آتی ۔۔۔۔اس لیے کہ غنڈوں کے دل میں قومی یک جہتی کا عظیم جذبہ موجود ہوتا ہے ۔“ ۔۔۔۔۔مزید لکھتے ہیں ۔۔۔۔
” یہ غنڈے بے پناہ سیاسی بصیرت کے مالک ہوتے ہیں اور بعض غنڈے تو اپنے عادات و خصائل کے اعتبار سے سیاست دان معلوم ہوتے ہیں ۔ویسے بھی فی زمانہ غنڈہ گردی اور سیاست ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔۔۔غنڈہ گردی کے بغیر سیاست اور سیاست کے بغیر غنڈہ گردی نہیں چل سکتی ۔۔۔۔ سیاست دان اپنے مخالف پارٹی کو نیچا دکھانے کے لیے غنڈوں کا سہارا لیتے ہیں ان کے جلسوں میں ہنگامے اور جلوس پر پتھراؤ کرواتے ہیں ۔۔دونوں پارٹیوں کے غنڈے لڑتے مرتے اور جیل جاتے ہیں جب کہ سیاست دان اپنے محلوں میں سکون سے بیٹھے تماشہ دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔عوام کے دکھ درد کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا بلکہ اس سے ان کی شہرت اور نیک نامی میں اضافہ ہوتاہے ۔۔۔۔۔۔ غنڈوں اور چمچوں میں بڑا فرق ہے ۔۔چمچے چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں اس لیے حکومت کے ساتھ ساتھ ان کی وفا داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں جبکہ غنڈے ؟؟؟؟؟“ ۔۔۔۔۔بس اس سے آگے ۔…….(غنڈوں اور مصنف کے بقول اپنے اندر چھپے ہوئے غنڈے کو بھی مزید جاننے کے لیے صرف یہ کتاب خریدیے ۔۔۔۔۔۔دھرنوں اور جلسوں میں وقت پیسہ اور عزت و جان برباد کرنے سے گریز کیجیے باقی آپ کی مرضی )۔۔۔۔اب مزید ۔۔۔۔آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
محترم احباب ۔۔۔۔آج جس کتاب پر تبصرہ لکھ رہی ہوں وہ ایک ایسا کباڑ خانہ ہے جس میں کہیں بھی کوئی مکڑی کا جالا نہیں ۔۔۔کوئی شے بے ترتیب نہیں ۔حالانکہ ماضی پرستوں کے لیے ماضی کا ہر رنگ بہار رنگ کی صورت ان کے ارد گرد خوشبو بن کر اترتا رہتا ہے جو گنگنا رہتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی کے سفر میں گذر جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو مقام وہ پھر نہیں آتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر نہیں آتے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کباڑ خانے میں ۔۔۔ایک کافور کی مہک بھی ہے ۔جو سقوط ڈھاکہ دیکھنے والے ایک کم عمر تخلیق کار کی دکھی یادوں کے مزار سے اٹھ رہی ہے ۔۔۔۔۔اس کیفیت میں تینوں زمانے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔۔۔۔انہیں پڑھتے پڑھتے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔بڑھتے جائیں تو کہیں” خدا کی تلاش میں خود کو کھوجنے کا سفر” ہے ۔۔تو کہیں ۔۔۔۔بے زاری کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کی دھن ۔۔۔۔۔کہیں گلیوں کی تہذیب کا مہذبانہ بیان ہے تو کہیں جنگل اور منگل کی کہانیاں بیتے دنوں کی چنگاریوں سے دھواں اڑا رہی ہیں ۔۔۔۔اگر ۔۔۔۔۔آئینہ اور پتھر ایک طرف پڑے ہیں تو دوسری طرف مسکراہٹ کے ہتھیار بھی موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔سنسان ۔۔۔۔۔ویران ۔۔۔۔۔۔آباد ۔۔۔۔۔۔۔مصروف سڑکوں کی کہانیاں اس کباڑ خانے کی اداس خاموشی میں بول رہی ہیں تو مردے خواب کیوں دیکھیں ؟۔بھی ان سنے سوال اٹھا رہے ہیں ۔۔۔’۔کچھ محبت کے بارے میں "۔۔۔۔کچھ نفرت کے بارے میں ۔۔سوچتے سوچتے ۔۔۔”۔۔اونگھتے اونگھتے۔۔”۔۔ کی جاناں میں کون۔؟؟؟؟؟۔۔کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ایسے میں” ایک سایہ برگد اور زلفوں کالہراتا ہے اور ۔۔”۔ہار جیت کے موسم میں” ۔۔۔چپکے چپکے پوچھتا ہے کہ "پانچواں موسم کون سا ہے”؟؟؟؟ ۔جناب اسلام تبسم کے تحریر کردہ ۔مضامین کے ۔۔۔۔یہ سب عنوانات قارئین کرام ۔۔۔۔۔جنگ نوائے وقت اوردیگر ادبی ایڈیشنوں میں اپنے بھرپور انشائیوں کے ہمراہ پڑھ چکے ہوں گے ۔۔۔۔اور جنھوں نے نہیں پڑھا وہ ان کھٹ مٹھے ایک کھوئی ہوئی مسکراہٹ کے حامل مضامین کو اس کتاب میں یکجا پڑھ لیں گے جس کا نام ہے ۔۔۔۔”کباڑ خانہ اور حسینوں کے خطوط "اور جس کے ناشر ہیں گردو پیش پبلی کیشنز کے روح رواں جناب رضی الدین رضی ۔۔۔۔عمدہ کتابت اور نہایت مناسب قیمت کی حامل مضامین کی اس کتاب میں انسانی نفسیات پر گہری نظر کے ساتھ سماجیات کی عمدہ تخلیقی عکاسی نے ہر مضمون کو مذکورہ بالا تمام عنوانات کے ساتھ دل پذیر بنادیا ہے ۔۔۔۔۔۔
آئیے۔۔۔۔۔۔۔سب سےدل چسپ اس کباڑ خانے کی تخلیق ۔۔۔۔۔”کٹھ پتلیاں اور تماشے” میں ۔۔۔۔۔۔ ذرا لفظوں کی سہل سی جادوگری دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔جناب تبسم ۔لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔”۔۔کٹھ پتلیاں مجھے اس لیے بھی مظلوم لگتی ہیں کہ انہیں کسی قسم کی آزادی حاصل نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔بعض اوقات مجھے کٹھ پتلیوں کی سادگی پر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ بے چاری کتنی آسانی سے سے خود کو اپنے مالک کے حوالے کیسے کردیتی ہیں ۔۔۔کٹھ پتلی کا ناچ دکھانے والا شخص بزدل اور ڈرپوک اس لیے نظر آتا ہے کہ ہر ظالم شخص اندر سے بزدل ہوتا ہے ۔۔۔اور مجھے کٹھ پتلی کا تماشہ د یکھنے
والا ہر شخص خود تماشہ لگتا ہے ۔۔۔۔”
اردو ادب کی مقبول صنف انشائیہ نگاری پڑھنے والے جناب اسلام تبسم کے دبستان انشائیہ نگاری سے واقف ہوں گے اور قلم و قرطاس کے رشتے سے بندھے ان کے دوست موصوف کے تخلص تبسم کے پس منظر میں چھپے درد کی حقیقت سے یقینا آشنا ہوں گے ۔۔۔
مجھے ایک قاری کی حیثیت سے اتنا یقین ہے کہ جناب اسلام تبسم ایک کہنہ مشق اور خالص انشائیہ نگار کی حیثیت سے خطہ ملتان کی پہچان ہیں ۔۔۔وہ خود کو وقت کا غلام نہیں سمجھتے کیوں وقت کے غلاموں کی سوچ محدود ہوتی ہے ۔۔
۔تبسم صاحب نے متنوع موضوعات کا ایک ایسا جہاں آباد کیا ہے ۔۔۔۔جس میں ہر موضوع ایک دل چسپ اور شائستہ اسلوب کا حامل ہے اور گردو پیش کے ناشر نامور شاعر و ادیب اور صحافی جناب رضی الدین اور صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف جناب شاکر حسین شاکر اپنی آرا میں بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں دونوں کے مطابق "1980 کی دہائی میں جب ملکی ادب کے منظر نامے میں ڈاکٹر سلیم اختر ڈاکٹر وزیر آغا ڈاکٹر انور سدید دبستان سرگودھا و لاہور اپنے اپنے انداز کے انشائیہ لکھ رہےتھے تو ایسے محمد اسلام تبسم نے ادب کے دونوں دبستانوں کےلیے نہ صرف خوب صورت انشائیے لکھے بلکہ اس دور کے نقادوں سے بھر پور تعریف و توصیف بھی وصول کی ۔۔۔۔
اور جوابا ًتبسم صاحب نے بھی اپنے دونوں ادبی احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور خاص طور رضی الدین رضی صاحب کی ادبی خدمات کا شکریہ ادا کیا ہے ۔۔۔جس میں ان کی معاشی معاونت سب سے اہم ہے ۔۔۔۔یاد رہے محترم احباب ۔۔۔۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے گردو پیش پبلی کیشنز نے کسی ادارے یا شخصیت سے کوئی مالی معاونت حاصل نہیں کی ۔۔یہ کتاب ناشر کے مطابق "پچاس فی صد رعایت پر سب کے لیے دستیاب ہوگی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن محمد اسلام تبسم کے حوالے کردی جائے گی ۔”۔۔۔
۔۔۔۔۔۔سرمایہ علم وادب جناب ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے بھی دردمندانہ اپیل کی ہے کہ کتاب خرید کر پڑھیں اس لیے ہماری بھی احباب سے یہی گذارش ہے کہ ہماہمی کے اس دور میں سچے قلم کاروں کی کتابوں کی قدر کیجیے سچ لکھا ہے مصنف نے کہ ”
ہمارے ہاں” کنگلے ادیبوں اور شاعروں "کے لیے کوئی مقام نہیں خواہ وہ کتنی ہی اچھی شاعری کیوں نہ کرتے ہوں ۔”
۔۔۔۔۔۔ویسے اس ضمن میں میرا خیال کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں امیر ادیبوں شاعروں و شاعرات کا بھی کوئی مقام نہیں خواہ کتنی مقدار و تعداد میں شاعری کی خریداری کیوں نہ کر لیں ۔۔۔۔۔اس لیے مایوس نہ ہوں ۔۔۔۔۔
آخر میں میرے طرف سے جناب اسلام تبسم کے مضمون ۔۔۔۔”کٹھ پتلیاں اور تماشے "کباڑ خانے اور حسینوں کے خطوط کے ساتھ "غنڈوں کی سیاسی بصیرت” کو بے حد داد تحسین …..بے حد شکریہ آپ نے۔۔۔۔ سر رضی اور ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے اس تخلیقی تصنیف کے لیے تبصرے کا حکم دیا میرے لیے یہ اعزازی سند ہے ۔۔۔کتاب کی تقریب پذیرائی بھی ضرور ہونی چائیے ۔۔مجھے یقین ہے کہ ۔۔انتظامیہ گردوپیش ضرور اہتمام کریں گے ۔۔
۔۔۔۔۔کتاب کی قیمت صرف تین سو روپے ہے ۔۔۔۔اور خواتین و حضرات اگر باذوق ہوں تو جانتے ہوں گے کہ فی الوقت ایک ” میعاری "کیفے میں دو چٹکی ایوری ڈے ایک مریل سی سبز الائچی اور تھوڑی سی شکر کے ساتھ اور چاکلیٹی ۔۔۔۔۔
بسکٹوں کے بغیر ایک چائے کا کپ بھی تین سو روپے میں دستیاب ہورہا ہے ۔۔۔۔ایسے میں ایسے معیاری ادب کو کم قیمت یا علمی و ادبی سبسڈی پر خرید کر نہ پڑھنا خوش ذوقی کی علامت نہیں وقت کو مسکراتے ہوئے اچھی کتابوں کے ساتھ دل لگاتے ہوئے گذارئیے ۔۔دھرنے جلسے نہیں اس وقت اتحاد ۔۔۔۔۔یک جہتی اور مسکراہٹ کے ساتھ صرف پی ٹی وی کی معصوم سی نشریات دیکھنا ضروری ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔بقول
مصنف ۔۔”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔وقت کاٹنا تو قطعا مشکل کام نہیں کوئی بھی وقت کاٹ سکتا ہے اصل بات تو یہ ہے وقت کو گزارا جائے ۔۔۔۔اور اس کو گزارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے گزرنے نہ دیا جائے اسے سرعام روک دیا جائے ۔۔۔اس کی آنکھوں پر سے موٹے شیشے کی عینک اتار دی جائے اور اس کے ہونٹوں پر تبسم کبھی نہ بجھنے والی لکیر دوبارہ چسپاں کردی جائے ۔
فیس بک کمینٹ