معروف انشائیہ نگار اور ادیب محمد اسلام تبسم کا بچپن مشرقی پاکستان میں گزرا ۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہی نہیں اس المیئے سے براہ راست متاثر بھی ہوئے ۔ انہوں نے ۔ خوں ریز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر پناہ گزین کے طور پر بھارت چلے گئے ۔ پانچ سال بعد وہ پاکستان آئے اور ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ “گِردو پیش‘‘ میں ان کی زیر طبع کتاب ‘‘ دوسری ہجرت‘‘ قسط وار شائع کی جا رہی ہے یہ سرکاری ملازمیں کی تحریر کردہ کہانیوں اور سرکاری رپورٹوں سے زیادہ اہم دستاویز ہے ۔ رضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سال چودہ اگست کے موقع پر مجھے بے اختیار مشرقی پاکستان میں منایا جانے والا آخری یوم آزادی یاد آجاتا ہے۔ 14اگست1971کی صبح جب میں گھر سے نکلا تو ایک اورہی منظر دیکھنے کو ملا ۔ اُس روزتقریباً تمام گھروں اور دُکانوں پر قومی پرچم لہرا رہاتھا ۔ اورپہلی مرتبہ دُکانداروں نے اپنی دُکانوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا ہوا تھااس کے علاوہ محلے کے مرکزی چوک پر ایک گیٹ بھی بنایا گیا تھا۔ لوگ بہت خوش دِکھائی دے رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج عید کا دن ہو۔ہر سال 23مارچ اور 14اگست کومشرقی پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پرچم کشائی کی تقریب ہوتی تھی جس میں سکول کے بچے قومی ترانے پڑھتے، اس کے بعد ان کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے جس میں جیتنے والوں کو انعام دیا جاتا تھا۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی شہر کے بڑے میدان میں پرچم کشائی کی تقریب ہوئی جس میں سکول بند ہونے کے باوجود بہت سے بچے شرکت کے لئے آئے تھے ان میںآس پاس کے دیہات سے آنے والے بنگالی بچے بھی شامل تھے ۔ بنگالی اور بہاری بچوں نے مل کر قومی ترانہ پڑھا اور کھیلوں کے مقابلے میں حصّہ لیا۔ چوں کہ مشرقی پاکستان میں مارشل لاءنافذ تھا اس لئے اس مرتبہ سارا انتظام فوجی حکام نے کیا تھا ۔
میںناشتے کے بعد گھر سے نکلا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر بڑے میدان کی طرف جا رہے تھے جہاں پرچم کشائی کی تقریب ہونا تھی یوں لگ رہا تھا جیسے سب لوگ عید کی نماز پڑھنے جا رہے ہوں۔میں بھی اُسی طرف چل پڑا جہاں لوگ جا رہے تھے ۔بڑے میدان میں میلے کا سماں تھا ،طرح طرح کی دُکانیں سجی تھیں اور بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ گھوم پھر رہے تھے۔ میدان کے ایک طرف سٹیج بنا ہوا تھاجس پر چند فوجی اورسول افسران بیٹھے تھے ،تھوڑی دیر بعد پرچم کشائی ہوئی اور قومی ترانہ پڑھا گیا، اس کے بعد فوجی پریڈ ہوئی ابھی کھیلوں کے مقابلے ہونا باقی تھے کہ میںواپس آگیا۔واپسی پر میں گھر آنے کی بجائے اپنے محلے میں گھومنے لگا گھومتے گھومتے میں اُس جگہ پہنچا جہاں بنگالیوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کو اجتماعی طور پر دفن کیا گیا تھا۔یہاں قبروں کے چاروں اطراف میں رنگ برنگی جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں اور پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔اس مقام پر ایک عجیب سی ویرانی چھائی تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے جو میں آج کئی عشروں کے بعد بھی محسوس کرتا ہوں کہ جیسے وہ ویرانی میری روح میں سما گئی ہو ۔اسی دوران ایک عورت اپنے معصوم بچے کے ہمراہ وہاں فاتحہ پڑھنے آئی ، ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے ،معصوم بچہ ننھے ننھے ہاتھ اُٹھائے اپنے بے گناہ مارے جانے والے باپ کی مغفرت کے لئے دُعا مانگ رہا تھا۔میں وہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرسکا اور واپس گھر لوٹ آیا۔
دوپہر کے وقت ہمارے علاقے میں ایک ٹرک آیا جس پر جھنڈا لگا ہوا تھااور اس میں سوار لوگ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے ۔ مجھ سمیت کئی لڑکے ٹرک پر سوار ہو گئے اور ’پاکستان زندہ باد ‘ کے نعرے لگانے لگے۔ٹرک ہمارے محلے سے دور نکل آیا۔ باقی لڑکے تو کچھ دیر بعد گھر واپس آگئے ،لیکن میں نہیںآیا ،اس طرح مجھے پورا شہر گھومنے کا موقع مل گیا۔اُس روز پورا شہر سجا ہوا تھا اور لوگوں کا جوش وخروش قابل دید تھا۔ ہمارا ٹرک جہاں سے گزرتا لوگ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے ہمارا استقبال کرتے۔ لوگوں میںاس طرح کا جوش و خروش میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ٹرک شہر کے مختلف علاقوں کا چکر لگانے کے بعد شام سے ذ را پہلے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک محلے میں جا کر رک گیا ،سب لوگ ٹرک سے اُترنے لگے ،میں بھی نیچے اُترآیا۔ یہاں میں پہلے کبھی نہیں آیا تھااس لئے مجھے یہاں سے گھر کا راستہ بھی معلوم نہیں تھا۔ میںنے ایک شخص سے ریلوے سٹیشن کا راستہ پوچھا کیوں کہ میں ریلوے سٹیشن سے بہ آسانی گھر پہنچ سکتا تھا۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ دو فوجی مجھے اپنی طرف آتے دِکھائی دیئے ۔اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کدھر جانا ہے ،میںنے اُنہیں بتایا کہ نیو ٹاو¿ن جانا ہے ۔اُن میں سے ایک فوجی بولا کہ آو¿ میں تمھیں چھوڑ آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ میرے ساتھ ہو لیا ۔ ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ مشرق کی جانب سے کالے بادل اُمڈتے دکھائی دیئے، دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا چھا گیا اور بجلی چمکنے لگی ۔گھر کے نزدیک پہنچ کر میں نے فوجی کو بتایا کہ وہ سامنے میرا گھر ہے ۔وہ واپس مڑ گیاابھی وہ چند قدم ہی گیا ہو گا کہ اچانک آسمان سے بجلی گری اور اس کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔گھر پہنچتے پہنچتے میں بری طرح بھیگ چکا تھا ۔دیر سے گھر پہنچنے پرمجھے بہت ڈانٹ پڑی۔یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہ تھی بچپن میں مجھے آئے دن ڈانٹ پڑتی رہتی تھی۔
رات کو سونے سے پہلے بستر پر لیٹا دن بھر کی مصروفیت کے بارے میںسوچ رہا تھا کہ مجھے اچانک چاچا فضل یاد آگیا۔چاچا فضل کا نام توفضل الرحمٰن تھا لیکن سب بچوں میں چاچا فضل کے نام سے مشہور تھا۔میں نے اپنی زندگی ایسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جن کا جینا مرنا پاکستان کے لئے ہو۔یوں تو اپنے وطن سے محبت کا جذبہ ہر دل میں ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن چاچا فضل کے اظہار کا انداز دوسروں سے مختلف تھا۔چاچا فضل ایک غریب بنگالی تھاجس کا نہ کوئی گھر تھا اور نہ ہی اس کے بیوی بچے تھے۔نیو ٹاو¿ن میں بہت سے مکان ایسے تھے جوکسی کو الاٹ نہیں ہوئے تھے اور یوں ہی خالی پڑے رہتے تھے۔ ان خالی مکانات میں بہت سے غریب لوگ رہائش اختیار کر لیتے تھے، جب یہ مکان کسی کو الاٹ ہو جاتا تو ان سے خالی کروا لیا جاتا تھا۔ چاچا فضل بھی ایسے ہی ایک مکان میں گزشتہ دو تین سال سے رہ رہا تھا۔اُس کے گھر میں ایک چوکی تھی جس پر وہ سوتا تھا۔ایک کرسی اورمیز کے علاوہ چند کتابیں اور کچھ برتن تھے ،بس یہی اُس کا کل اثاثہ تھا۔چاچا فضل ہر سال چودہ اگست کو سب بچوں کو جمع کر لیتا اورجلوس کی صورت میں پورے علاقے کا چکر لگاتا تھا۔اُس کے ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں ٹین کا بناہوا بھونپو ہوتاتھا، وہ سب بچوں کے ساتھ مل کر’ پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مختلف راستوں سے گزرتاتو بہت سے لوگ اُسے دیکھ کر ہنستے تھے۔ چاچا فضل کے بارے میں لوگ مختلف رائے رکھتے تھے۔کچھ لوگوں کے نزدیک وہ نیم پاگل تھا جب کہ کچھ لوگ اُسے بھارتی جاسوس کہتے تھے ،اُن کا کہنا تھا کہ یہ دکھاوے کے لئے اس طرح کے ڈرامے کرتا ہے۔اس لئے خود کو معزز سمجھنے والے اپنے بچوں کو چاچا فضل کے جلوس میں نہیں جانے دیتے تھے۔ جلوس کے اختتام پر چاچا فضل سب بچوں کو مٹھائی کھلاتا اور اُنہیں قائدِاعظم، لیاقت علی خان، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دوسرے رہنماو¿ں کی تصاویر دیتا تھا۔یہ تصاویر وہ مختلف اخبارات اور رسائل سے کاٹ کر جمع کرتا تھا۔
چاچا فضل لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتا تھا ۔شام کو کام سے واپس آنے کے بعداپنے لئے کھانا پکاتا اور کھانا کھانے کے بعد کوئی کتاب یا رسالہ پڑھنے بیٹھ جاتاتھا۔چاچا فضل کا تعلق مغربی بنگال سے تھا، وہاں فسادات میں اُس کے والدین مارے گئے تھے اور وہ کسی طرح بچتا بچاتا پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ چاچا فضل نے اب تک شادی نہیںکی تھی ،جب کوئی اُس سے شادی کے بارے میں سوال کرتا تو وہ جواب دینے کی بجائے صرف مسکرا دیتا تھا۔
1970کے الیکشن کے دوران بنگالیوں کی اکثریت عوامی لیگ کے ساتھ تھی ،بہت کم لوگ ایسے تھے جو عوامی لیگ کو پسند نہیں کرتے تھے،چاچا فضل بھی اُنہی لوگوں میں تھا،لیکن وہ اپنی نا پسندیدگی اظہار نہیں کرتا تھا، کیوں کہ اُس وقت عوامی لیگ دہشت گردی کی علامت سمجھی جاتی تھی اس لئے لوگ اس کے خلاف زبان کھولتے ہوئے ڈرتے تھے۔الیکشن کے دنوں میں جب کبھی عوامی لیگ کا جلوس ’جئے بانگلہ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اُس کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو چاچا فضل کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے تھے۔ فوج اور پولیس میں بغاوت کے بعد ہمارے علاقے کے تمام بنگالی اپنے گھر بار چھوڑ کر دور دراز کے دیہات یا بھارت چلے گئے تھے لیکن چاچا فضل نے اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ اُس کا کہنا تھا کہ میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ ایک رات ایک فوجی جیپ جس میں بنگالی فوجی تھے ،اُس کے گھر کے سامنے آکر رُکی دو فوجی اُس کے گھر میں داخل ہوئے ،اُسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے اور جیپ میں ڈال کر لے گئے۔اُس کے پڑوسی بتاتے ہیں کہ جب وہ اُسے لے جا رہے تو وہ بار بار کہہ رہا تھاکہ بھائی میں تو بنگالی ہوں مجھے کیوں لے جا رہے ہو؟لیکن فوجیوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور یہی کہتے رہے کہ سالاتو غدار اور پاکستان کا ایجنٹ ہے۔اس کے بعد چاچا فضل کا کوئی پتہ نہیں چلا،یقینا اُسے پاکستانی ہونے کے جرم میں مار دیا گیا ہو گا۔صبح جب بچے اُس کے گھر میںداخل ہوئے تو سارا سامان اُسی طرح پڑا تھا۔میز کی دراز میں اخبارات سے کاٹی گئی کچھ تصویریں تھیں بچوں نے وہ تصویریں اُٹھائیں اور’ پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے باہر نکل آئے۔