اسلام آباد : اسلام آباد میں وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے ہندو کمیونٹی کو شمشان گھاٹ اور مندر کے باہر چار دیواری کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے۔ تحریک انصاف کے اقلیتی ارکان اسمبلی نے اسے مندر کی تعمیر کے سفر میں اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد ہندو پنچائت کے صدر پریم داس کو لکھے گئے خط میں آگاہ کیا گیا ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں ہندو کمیونٹی کے لیے مندر، کمیونٹی سینٹر اور شمشان گھاٹ کے لیے چاردیواری کی مشروط اجازت دی جاتی ہے۔
خط میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ چاردیواری سات فٹ سے اونچی نہیں ہوگی۔ خط کے مطابق یہ دیوار یا تو ٹھوس دیوار ہوسکتی ہے یا ایک فٹ تک اس میں ٹھوس چنائی باڑ لگائی جاسکتی ہے۔
نواز شریف کی حکومت نے سنہ 2017 میں ہندو کمیونٹی کو مندر، شمشان گھاٹ اور کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کے لیے ایچ نائن ٹو میں چار مرلے زمین الاٹ کی تھی، جہاں ہندو کمیونٹی مندر کے ساتھ کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کا ارادہ رکھتی تھی، جس کا نام کرشنا کمپلیکس تجویز کیا گیا۔تاہم اس کمپلیکس کی بیسمنٹ سمیت مجوزہ تین منزلہ عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کے بعد تعمیر کا کام تاخیر کا شکار رہا۔تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 100 ملین رپے کی رقم مختص کی، جس کے بعد مندر کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔
اسلام آباد میں اس مندر کی تعمیر کے دوران کچھ مذہبی رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی مملکت میں بت خانے کی تعمیرِ غیر شرعی ہے اور صرف پرانے مندروں کی بحالی و توسیع ہو سکتی ہے،مندر کی تعمیر کے آغاز سے ہی بعض مذہبی حلقوں اور جماعتوں کی جانب سے شدید اعتراضات اور احتجاج سامنے آیا۔
لاہور کے مدرسہ جامع اشرفیہ کے مفتی محمد ذکریا نے فتویٰ جاری کیا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اسلام کے مطابق اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال اور انھیں قائم رکھنا جائز ہے تاہم نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مندر کی تعمیر کو رکوانے کے لیے تین درخواستیں دائر کی گئیں اور مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے اس نقطے کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ مندر کی تعمیر اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں شامل نہیں ہے تاہم عدالت درخواستوں کو غیر موثر قرار دے کر نمٹا دیا۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اگرچہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں مندر کے لیے جگہ مختص نہیں تھی مگر اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے چیئرمین اور سی ڈی اے کے بورڈ ممبر لے آؤٹ پلان کے تحت بھی وفاقی دارالحکومت کے کسی سیکٹر میں پلاٹ الاٹ کرنے کے مجاز ہیں۔
حکومت کی جانب سے پاکستان اسلامی نظریاتی کاؤنسل سے رائے طلب کی گئی۔ کونسل نے مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا اور اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ ہندو کمیونٹی کو اپنی رسومات کی ادائیگی کا آئینی حق حاصل ہے۔