جمہوریت ہو یا آمریت، نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، حکومت ووٹ سے بنی ہو یا دھونس سے،عدالتی فیصلوں کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہتی ہے۔ فیصلہ حکمرانوں کے خلاف آ جائے تو وہ ”نیوں نیویں“ ہو کر متبادل حل ڈھونڈنے لگتے ہیں، اگر حق میں آ جائے تو مخالفین کی امیدیں ”ٹھر“ جاتی ہیں۔ توقع عموماً یہی ہوتی ہے کہ حالات کے جبر میں دبے ہوؤں کو ”ریلیف“ ملے گا اور بالا دستوں کی من مرضی کو بریکیں لگیں گی۔ تقریباً ہر زمانے میں ہی کوئی نہ کوئی عدالتی معاملہ شہرت اختیار کر لیتا ہے، تاہم سیاستدانوں کے معاملات کچھ زیادہ ہی عوامی توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ آج کل بھی سابق وزیر اعظم نوازشریف کو برطانیہ سے وطن واپس لا کر قانون کے حوالے کرنے کا معاملہ اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے اور کافی مشہور چل رہا ہے۔ سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والا، اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا حکومت یا پاکستانی عدالتوں کی خواہش یا فیصلے پر کسی کو برطانیہ سے نکلوا کر وطن واپس لایا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے کوئی دو طرفہ معاہدہ موجود ہے؟
یا ماضی میں کوئی مثالیں پائی جاتی ہیں؟متعدد ممالک کے، عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے آپس میں موجود ہیں، مگر پاکستان کے دفتر خارجہ نے عدالت عظمیٰ میں ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے جو فہرست جمع کرائی ہے اس کے مطابق، برطانیہ کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس فہرست میں 34 ممالک شامل ہیں، جن کے ساتھ پاکستان کا ملزموں کی حوالگی کا دو طرفہ معاہدہ موجود ہے۔ اس فہرست میں امریکہ سمیت وہ 7 ممالک بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ہم نے براہ راست معاہدہ نہیں کیا بلکہ برطانوی راج میں قیام پاکستان سے پہلے کا ان ممالک سے معاہدہ تھا جو ہم نے 1973ء میں ایک ایس آر او کے تحت اختیار کر لیا، یعنی ہمیں ورثے میں ملا۔ ان میں امریکہ کے علاوہ ایران، فرانس، بلجئیم، ارجنٹائن، یونان اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی 14 ممالک ایسے ہیں جن سے برطانوی حکومت کا معاہدہ تھا جو ہم نے 1980ء میں اپنا لیا۔ ان میں ڈنمارک، مناکو، ایکواڈور، ہالینڈ، آسٹریا، عراق، پرتگال، لکسمبرگ، کولمبیا، لائبیریا، کیوبا، سان مرنیو، اٹلی شامل ہیں۔ یوگو سلاویہ بھی شامل تھا، مگر وہ 1990ء میں ٹوٹ کر ختم ہو گیا۔ جن ممالک سے پاکستان نے خود ملزموں کی حوالگی کے دو طرفہ معاہدے کئے ان میں سعودی عرب، ترکی، مصر، ازبکستان، مالدیپ، چین، الجیریا، لیبیا، متحدہ عرب امارات، کویت، تاجکستان اور ملائشیا شامل ہیں۔
یہ تاریخ کا دلچسپ مذاق ہے کہ جس عالمی طاقت کی ہمارے خطے پر حکومت بھی تھی اور یوں وہ ہماری نمائندہ بھی تھی، اس کے دیگر ملکوں سے معاہدے ہم نے اپنا لئے، مگر آزاد ہونے کے بعد اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کیا۔ اس وقت اس کے ساتھ ہمارا معاہدہ نہیں ہے، چنانچہ اپنے مجرموں یا ملزموں کو دوسرے ملکوں سے حاصل کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے جو حوالگی کے دو طرفہ معاہدوں کی رو سے اختیار کیا جاتا ہے دوسرا طریقہ ”ڈاہڈے“ یا ”زور آور“ امریکہ کا ہے۔ وہ اپنی طاقت، مہارت اور سائنسی ترقی کے زور پر اپنے بندے اٹھا کر زندہ یا مردہ لے جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس نے دو مرتبہ یہی کیا۔ پہلا واقعہ ایمل کانسی کا تھا۔ ایمل کانسی 10 فروری 1964ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ باپ کے مرنے پر کافی پیسے مل گئے تو اس نے امریکہ میں قسمت آزمائی کی ٹھانی۔ پیسے کے زور پر کاغذات بنوا کر امریکہ چلا گیا۔ ورجینیا میں سی آئی اے کے صدر دفتر میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1993ء میں کسی بات پر طیش میں آکر فائرنگ کر دی جس سے سی آئی اے کے دو اہلکار مارے گئے اور ایک زخمی ہو گیا۔ وہ بھاگ کر قندھار (افغانستان) میں روپوش ہو گیا۔
طالبان کی حکومت آنے پر وہاں سے بھاگ کر پاکستان کے سرحدی علاقے میں چھپ گیا۔ اس کے سر کی قیمت 25 لاکھ ڈالر مقرر ہو چکی۔ تھی لالچ میں آکر ایک شخص نے کراچی کے امریکی قونصل خانے میں جا کر اطلاع دی کہ ایمل کانسی پاکستان کے سرحدی علاقے میں ہے ثبوت پیش کئے سرحدی علاقے میں کارروائی مشکل تھی، اس لئے اس کو دھوکے سے پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں لانے کے لئے جال بچھایا گیا۔ دو پٹھانوں کے ذریعے اسے سمگلنگ سے لاکھوں کروڑوں کمانے کا لالچ دے کر حتمی گفتگو کے لئے ڈیرہ غازیخاں بلایا گیا۔ شالیمار ہوٹل میں کمرہ بک تھا، وہ علی الصبح ساڑھے چار بجے کمرے میں پہنچا۔ پانچ بجے ایف بی آر نے پاکستانی پولیس کی مدد سے چھاپہ مار کر پکڑ لیا۔ امریکی سفارتخانے لے جایا گیا اور وہاں سے امریکہ، مقدمہ چلا سزائے موت دی گئی۔ زہر کا ٹیکہ لگا کر 14 نومبر 2002ء میں ورجنیا میں ہی اسی جگہ مار دیا گیا، جہاں اس نے امریکیوں کو مارا تھا۔
اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن سعودی شہر ریاض میں 10 مارچ 1957ء کو ارب پتی خاندان میں پیدا ہوا۔ افغان جہاد میں روس کے خلاف کثیر سرمایہ خرچ کیا۔ جب روس ٹوٹ گیا تو جہاد امریکہ کے خلاف شروع کر دیا۔ سعودی عرب نے اسامہ کی شہریت 2004ء میں منسوخ کر دی۔ اسامہ نے اپنا مرکز سوڈان کو بنا لیا۔ وہاں سے بھی امریکی دباؤ پر نکال دیا گیا تو مرکز افغانستان کو بنا لیا۔ امریکہ نے مارنے کی متعدد کوششیں کیں۔ نائن الیون سانحہ کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر دس سال تک اسامہ کی تلاش جاری رہی۔ بھاری انعام بھی مقرر کیا گیا۔ بالآخر اس کی بھی مخبری ہوئی اور امریکی بحریہ کے کمانڈوز نے 2 مئی 2011ء کو آپریشن کر کے ایبٹ آباد میں اس کی رہائش گاہ پر ہی قتل کر دیا اور نعش کو ہیلی کاپٹر میں ڈال کر بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحری جنگی جہاز پر پہنچایا گیا، جہاں سپرد آب کر دیا گیا۔
قارئین اب خود ہی غور کر لیں ہمارا مطلوبہ ملزم لندن میں ہے اور برطانیہ سے ہمارا کوئی معاہدہ نہیں جبکہ ہم امریکہ بھی نہیں ہیں کہ اپنے بندے جہاں سے بھی چاہیں اٹھا کر لے آئیں۔
(بشکریہ:روزنامہ پاکستان)