گورا راج کے دوران برصغیر پاک و ہند میں برطانوی سامراج کے خلاف بات کرنے کو بہادری اور دلیری سمجھا جاتا تھا تاج برطانیہ کے خلاف اور آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو بہادر اور حریت پسند کہا جاتا اور عزت و توقیر کا حقدار سمجھا جاتا۔ ایسے مسلمان رہنماؤں میں مولانا حسرت موہانی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کشمیری نمایاں تھے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں اور جیلوں میں جسمانی تشدد کی اذیتیں برداشت کیں مگر انگریز حکومت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ تب یہ چلن درست بھی تھا۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہندوستان کی حکومت چھینی تھی مسلمان ہی انہیں دیس نکالا دینے میں حق بجانب تھے۔ غیر ملکی غاصبوں کے خلاف جدوجہد اہل ہند کا حق تھا۔ اس جدوجہد کی حمایت برصغیر کے ہر باسی کے دل میں اگر تھی تو وہ ملی تقاضا تھا۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں قائد اعظم کی قیادت میں آزادی ملی، آزاد وطن ملا تو اس کے تقاضے غلامی کی زندگی سے مختلف ہونے چاہئیں تھے۔ اپنے میں سے اپنے حکمرانوں کے بارے میں رویہ غیر ملکی سامراجیوں سے ذرا جدا ہونا چاہئے تھا مگر جرأت بہادری اور حریت پسندی کو بدستور حکومتوں اور حکمرانوں کے خلاف سرگرمیوں سے مشروط سمجھا جاتا رہا۔ چیزوں کو درست یا غلط کے پیمانے پر جانچنے کی بجائے میری، تیری یا پسند نا پسند کی عینک سے دیکھنے کا فیشن ہماری عادت بن گیا۔ ہمارا واحد معیار ”بھاندے دی ہر شے بھاندی تے نہ بھاندے دی کوئی شے نہ بھاندی“ بن گیا۔ ہم اپنی حکومتوں سے جلد ہی بیزار ہو جاتے ہیں اور اتنے بیزار ہو جاتے ہیں کہ اپنے غیر ملکی حکومتوں سے بھی اتنے اوازار نہیں ہوتے تھے۔ سادہ سی بات ہے کہ حکومت بھلے عسکری ہو، منتخب ہو یا چنتخب ہے تو ہماری اپنی، حکمرانوں میں لاکھ خامیاں کوتاہیاں ہوں، ہیں تو ہم وطن اور محب وطن۔ ان میں نا اہلیاں بھی ہو سکتی ہیں مگر وہ دشمن کے آلہ کار، غدار یا وطن دشمن نہیں ہوتے۔
ہم مخالفت کو دشمنی اور کوتاہی کو غداری کا نام دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ میں بھی موجودہ ”انصافی حکومت“ کا ناقد ہوں مگر اسے ملت فروش یا وطن دشمن قرار دینے کے لئے تیار نہیں۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بحث میں اور اہل سیاست کے بیانات سے تو یوں لگتا ہے جیسے حکومت کلبھوشن کو رہا کر کے ازلی دشمن بھارت کے حوالے کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اس کی دلیل صدارتی آرڈیننس اور قونصلر کی بار بار رسائی اور ہائی کورٹ میں حکومت کی جانب سے اپیل کو بنایا جا رہا ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ حقائق سے لاعلمی ہے۔ آیئے آج اس کیس کے حقائق کا جائزہ لے لیں۔ کلبھوشن سدھیر یادیو 16 اپریل 1970ء کو بھارتی ریاست (صوبہ) مہاراشڑ کے مشہور شہر ممبئی کے علاقے سالنگی میں ریٹائرڈ پولیس افسر سدھیر یادیو کے گھر پیدا ہوا۔ والدہ کا نام اوانتی یادیو ہے۔ اس کی بیوی اور دو بچے ہیں جو ممبئی ہی میں رہتے ہیں۔ 17 سال کی عمر میں 1987ء میں بھارتی بحریہ میں افسر بھرتی ہوا۔ بھارت کہتا ہے کہ اس نے 2001ء میں بحریہ سے ریٹائرمنٹ لے کر ایرانی شہر چاہ بہار میں کاروبار شروع کر دیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ گرفتاری تک بھارتی بحریہ کا افسر ہی تھا اور تاجر کے روپ میں کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کرا رہا تھا۔ اس نے تاجر کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا اور حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ بھی بنوا رکھا تھا اسے پاکستانی علاقے چمن سے 3 مارچ 2016ء کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی ایجنسی ”را“ نے الزام لگایا کہ اسے طالبان نے ایک سال قبل ایران سے اغوا کیا تھا اور اب آئی ایس آئی کو فروخت کر دیا ہے۔
ایرانی صدر ان دنوں پاکستان کے دورے پر تھے انہوں نے معاملے کی تحفیقات کا عندیہ دیا۔ پاکستان نے اس بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا۔ کورٹ مارشل کیا کلبھوشن نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہمارے فوجی قانون کے تحت غیر ملکی فوجی دہشت گردوں کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے اور فیصلے کے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں کی جا سکتی۔ عام فوجی عدالتیں اپنے شہریوں یا فوجیوں کے خلاف جو فیصلے دیتی ہیں ان کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے مگر دہشت گردوں کے کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کی گنجائش نہیں ہے۔ فوجی عدالت نے 10 اپریل 2017ء کو کلبھوشن کو سزائے موت سنا دی۔ بھارت فوراً عالمی عدالت انصاف میں چلا گیا۔ عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے تا فیصلہ مقدمہ سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا۔ درخواست برائے سماعت منظور ہو گئی۔ بھارت نے استدعا کی کہ چونکہ پاکستان نے ویانا کنورشن کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا اس لئے کلبھوشن کی سزاختم کی جائے۔ اسے رہا کر کے بھارت کے حوالے کیا جائے۔ پاکستان نے عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ عالمی عدالت کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ پاکستان نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو عدالت کا ایڈہاک جج مقرر کرنے کی استدعا کی جو قبول کرلی گئی مگر وہ علیل ہو گئے۔ 15 رکنی عدالت نے سماعت کی فیصلے میں وہ شامل تھے اور سات میں سے چھ نکات پر باقی ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ اس طرح یہ فیصلہ 15-1 کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ صومالیہ کے عبدالقوی احمد یوسف عدالت کے چیئرمین تھے جبکہ چین کے سوہانجن نائب صدر تھے۔ عدالت نے 17 جولائی 2019ء کو فیصلہ سنایا۔
عدالت نے پاکستان کے عدالتی دائرہ اختیار کا اعتراض مسترد کر دیا۔ اس طرح کلبھوشن کی رہائی کی بھارتی درخواست بھی مسترد کر دی تاہم باقی ساری باتیں بھارت کی مان لیں۔ پاکستان کو ویانا کنونشن کے تحت ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ حکم دیا گیا کہ کلبھوشن کیس پر نظر ثانی کا انتظام کیا جائے اور اس وقت تک سزا پر عملدرآمد معطل رہے گا۔ نظر ثانی کا طریقہ کار پاکستان نے خود طے کرنا ہے۔ عدالت نے پاکستان کو پابند کیا کہ وہ کلبھوشن کو ویانا کنونشن کے تحت حاصل حقوق سے آگاہ کرے۔ اس تک قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان نے بھارت کو ملزم کی گرفتار ی کی بروقت اطلاع نہیں دی ا ور اس طرح بھارت کو اپنے شہری کی قانونی مدد کے حق اور قونصلر کی ملاقات کے موقع سے محروم کر دیا۔ اس فیصلے میں پاکستان کو فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کا انتظام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ پاکستانی قانون میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ فیصلے پر عملدرآمد کے لئے پاکستانی قانون میں ترمیم ناگزیر ہے۔ اس کا حل قانون سازی ہے جو پارلیمینٹ نے کرنی ہوتی ہے صدر کی طرف سے آرڈیننس کا اجراء بھی اس قانون سازی کی طرف ایک پیشرفت ہے۔ پارلیمینٹ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف پہلے ہی ویانا کنونشن کے حوالے سے ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا چکی ہے۔
اس لئے اگر نظر ثانی ہوتی نظر نہ آئی تو یہ حکم عدولی ہو گی۔ بھارت تو یہی چاہے گا کہ پاکستان پھر عالمی قوانین سے انحراف کا مرتکب ہو اور وہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جائے جہاں مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس پہلے ہی بھارت کے ہمنوا اور سزائے موت کے خلاف ہیں۔ غیر مستقل ارکان میں سے ایک تو خود بھارت ہے۔ ایسے میں لے دے کر چین رہ جاتا ہے جو پاکستان کے حق میں ویٹو استعمال کرتا رہا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ وہ بھی اپنی ترجیحات موقع کی مناسبت سے طے کرتا ہے۔ اس کے لئے عالمی عدالت کے فیصلے سے پاکستانی انحراف کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ یوں ہم بھارت کو دنیا میں تنہا کرتے کرتے خود تنہا کھڑے نظر آئیں گے۔ اس لئے ضروری تھا کہ عسکری قوانین میں مطلوبہ ترمیم کر کے کلبھوشن یادیو کیس پر نظر ثانی کا اہتمام اس طرح کیا جائے کہ وہ ہوتا نظر بھی آئے۔ یہ اہتمام ہمیں اپنی سہولت کے مطابق کرنے کا اختیار خود عالمی عدالتِ انصاف نے دیا ہے۔ بھارت کی طرف سے وکیل کا انتظام نہ کرنے اور کلبھوشن کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل نہ کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ نظر ثانی کا عمل ہوتا نظر نہ آئے اور عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کی سزا معاف یا کم کرنے کا حکم جاری کر دے کہ ”پاکستان نے مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے“ اس طرح کے ممکنہ فیصلے سے پاکستان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی عالمی عدالت انصاف میں اب تک کے فیصلوں میں پاکستان کے لئے خیر کم کم ہی نظر آتی ہے۔ بگلیہار ڈیم کا فیصلہ اس کی ایک واضع مثال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان حکومت نے خود وکیل فراہم کرنے اور خود ہی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تقاضے پورے کئے جا سکیں اور عالمی ادارے میں سبکی سے بچا جا سکے۔ اس صورتحال کو حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر چیز کو سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی روش سے کسی گروہ یا جماعت کا وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے ملک و قوم کا تو اس میں نقصان ہی نظر آتا ہے۔
( بشکریہ :روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ