آج پھر پرانی بات یاد آ گئی اور بے وجہ بھی یاد نہیں آئی 1964ء میں ٹیلی ویژن کا وطن عزیز میں آغاز ہوا اس سے قبل معلومات، تفریح، خبروں اور پراپیگنڈے کا واحد برقی ذریعہ ریڈیو تھا۔ یہ سستا ذریعہ تھا 90 روپے کا ٹرانسسٹر آ جاتا تھا۔ تقریباً ہر شخص کی رسائی میں تھا۔ یہ سلسلہ مقبولیت کا پی ٹی وی تک عام آدمی کی رسائی تک جاری رہا۔ ان دنوں کسانوں کے لئے پروگرام بھی مقبول ہوتے تھے۔ ان پروگراموں میں ایک اشتہار بہت تسلسل سے چلتا تھا اور پسند بھی کیا جاتا تھا۔ ”سوگلا دی اکو گل۔ بہتے پانی دا اکو حل۔ نواب ٹیوب ویل نواب ٹیوب ویل“ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کاشتکاری کے لئے وافر پانی درکار ہے تو اس کا ایک ہی (واحد) حل یہ ہے کہ نواب ٹیوب ویل لگوایا جائے۔ آج کل صورتحال یہ بن گئی ہے یا بنائی جا رہی ہے کہ ملک و قوم کو جتنے مسائل درپیش ہیں ان کا اکو (واحد) حل یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کو لندن سے واپس لا کر حسب سابق زنداں میں ڈال دیا جائے۔ سرکار دو سال مکمل ہونے پر بجا طور پر شاداں ہے اور اس کا اظہار با جماعت پریس کانفرنس کا نیا رواج ڈال کر کیا جا رہا ہے۔ پانچ پانچ چھ چھ وزرائے کرام اکٹھے پریس کانفرنس فرماتے ہیں اور حکومت کی کامیابیاں گنواتے ہیں۔ کچھ وزراء صرف کامرانیوں کی لکھی ہوئی داستان سنا کر چلے جاتے ہیں کچھ صحافیوں کے قابو آ جاتے ہیں سوال جواب ہوتے ہیں پھر چھپتا اتنا ہی جتنا ”پیا من بھاتا ہے“ اب اس میں بھی سرکار کے منہ کا ذائقہ خراب کرنے کا سامان نکل آئے تو ”قسمت اپنی اپنی“ پوچھا جائے کہ سونا سوا لاکھ روپے تولہ ہو گیا؟ جواب ملتا ہے نوازشریف خزانہ کھا گیا۔
سوال کیا جائے کہ آٹا غریب کی پہنچ سے دور ہو گیا۔ فرمایا جاتاہے کہ نوازشریف کو واپس لا کر سزا پوری کرائیں گے۔ بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں کا ذکر کیا جائے تو بھی تان نوازشریف کی واپسی پر ٹوٹتی ہے۔ اسی لئے غالباً لیگی خاتون رہنما کی یہ پھبتی چل گئی کہ اگر سب کچھ نوازشریف کے آنے سے ہی ٹھیک ہونا ہے تو پھر اسی کو اختیار و اقتدار واپس سونپ دو تاکہ عوام تو سکھ کا سانس لیں۔ با جماعت پریس کانفرسوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی تین بلاروں مشیر وزیر اعظم شہزاد اکبر، معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل، صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کی پریس کانفرنس تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ نوازشریف کی واپسی کے لئے برطانیہ کو مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے ان کی واپسی سزا یافتہ مجرم کی حیثیت سے ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مجرم دوا لینے جائے اور واپس ہی نہ آئے۔ ان کو واپس لانا شہباز شریف کی ذمہ داری ہے وہ ضمانتی ہیں یہ بھی کہنا تھا، ان کا کہ نوازشریف لندن جاتے وقت ڈاکٹروں سے فراڈ کر گئے قبل اس کے کہ اس پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں کا جواب کوئی سرکار مخالف دیتا خود حکومت کے سب سے تجربہ کار حلیف وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کم و بیش اسی وقت ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حکومت تو اسحاق ڈار کو واپس نہیں لا سکی نوازشریف کو لانا تو اور بھی مشکل ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہو گی۔
فضل الرحمن کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتے ہیں مزید یہ کہ مردہ اپوزیشن عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ دلچسپ بات بھی ان کے منہ سے نکلی کہ عمران خان اب نوازشریف کے جانے پر پچھتا رہے ہیں۔ برطانیہ سے مجرموں کی واپسی یا تبادلے کا معاہدہ نہ ہوتے ہوئے کسی مجرم کی واپسی کا قانونی طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ اور اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا تاہم متذکرہ بالا بیانات دلچسپی اور اہمیت کے حامل ہیں، دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ نوازشریف نے جاتے وقت ڈاکٹروں کو دھوکہ دیدیا۔ ہم عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ کل کی باتیں بھول جائیں۔ اگر نوازشریف نے دھوکہ دیا تو صرف ڈاکٹروں کو نہیں سیاسی معرکے مارنے والے سرکاری بزرجمہروں کو بھی الو بنا گئے۔ لوگوں کو صوبائی وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشد (جو خود تجربہ کار ڈاکٹر ہیں) شوکت خانم ہسپتال کے چیف ڈاکٹر فیصل وزیر اعظم اور وزیر ریلوے کے بیانات یاد ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے متعدد پریس کانفرنسوں میں بتکرار کہا کہ میاں نوازشریف شدید بیمار ہیں۔ ان کی حالت ٹھیک نہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے انہیں بیرون ملک بھیج دینا چاہئے۔ بعض ناگزیر ٹیسٹ ملک میں ہونا ممکن نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے معتمد ماہر ڈاکٹر فیصل کو مریض کے معائنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے بھی وزیر اعظم کو یہی رپورٹ دی کہ مریض نوازشریف کے پلیٹ لٹس قابو میں نہیں آ رہے۔ حالت نازک ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی وزیر ڈاکٹر اور اپنے ڈاکٹر اور اپنے معتمد خاص ڈاکٹر اور میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں کی روشنی میں، اپنے سینئر ترین وزیر اور ماہر سیاسیات شیخ رشید کے مشورے پر انسانی ہمدردی کے تحت مجرم مریض کو بغرض علاج، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے تحت بیرون ملک جانے دیا ان کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا اور وہ لندن چلے گئے۔ ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سرِ فہرست برطانیہ میں کورونا کے علاوہ کسی اور مرض میں مبتلا افراد کو ہسپتالوں میں طبی سہولیات نہیں دی جا رہی تھیں اس لئے ان کا مطلوبہ آپریشن ابھی تک نہیں ہو سکا۔ وہ جب ٹھیک ہوں گے تو واپس آ جائیں گے۔ سرکاری ترجمان کہہ رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف ضامن ہیں وہ مجرم کو واپس لائیں یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ایک مروجہ صورت یہ ہے کہ ملزم یا مجرم کے حاضر نہ آنے کی صورت میں ضامن سے زرضمانت سرکاری خزانے میں جمع کرانے کو کہا جائے یا اس کے مساوی اس کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ضبط کر لی جائے۔ غالب امکان یہ ہے کہ اس پر میاں شہباز شریف کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ویسے کہنہ مشق شیخ رشید نے تب جو مشورہ دیا تھا کہ نوازشریف کو جانے دو تو وہ خاصا صائب مشورہ تھا۔ ان کا مقصد بھی کسی ممکنہ نا خوشگوار صورتحال کی ذمہ داری حکومت یا حکمرانوں پر نہیں آنی چاہئے دوسرے کہ کہ نوازشریف جیل میں ہوتے ہوئے بھی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ باہر چلے جائیں تو حکومت سکھ کا سانس لے گی۔ شروع شروع میں ایسا ہی محسوس ہوا اب اطلاعات ہیں کہ میاں صاحب لندن سے بذریعہ ٹیلی فون لوگوں سے رابطے کر رہے ہیں۔
اپنی بیٹی مریم نواز اور لیگی رہنماؤں کو ہدایات دے رہے ہیں اس پر ظاہر ہے کہ وہ وطن عزیز کی جیل میں پابند سلاسل ہی بہتر ہوں گے۔ شیخ رشید نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنے روایتی عوامی انداز میں یہ بھی کہا کہ مریم نواز نے نیب پیشی کے موقع پر پولیس کو پتھر نہیں مارے بلکہ انہوں نے اپنے چچا میاں شہباز شریف اور چچیرے بھائی حمزہ شہباز کی سیاست کو پتھر مارے ہیں۔ شریف خاندان اور لیگی رہنما گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کو بھی مردہ قرار دے کر پیش گوئی کی کہ اپوزیشن کی اے پی سی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں تو شیخ رشید کو اپنے موجودہ قائد وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دینا چاہئے کہ وہ میاں نوازشریف کو وطن واپس لانے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کریں۔ اس کی وجہ ہے کہ اگر میاں صاحب آ گئے تو شریف خاندان میں لڑائی ختم ہو جائے گی ا ور مسلم لیگی رہنما اور دھڑے متحد ہو جائیں گے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن مردہ نہیں رہے گی۔ اس میں جان پڑ جائے گی۔ میاں نوازشریف تو جیل میں ہونے کے ناتے میدان میں فعال نہیں ہوں گے مگر ان کا سیاسی بھوت بہت سوں کو ڈراتا رہے گا۔ جہاں تک اے پی سی کا تعلق ہے تو مولانا فضل الرحمن کے علاوہ آفتاب شیر پاؤ سمیت متعدد چھوٹی بڑی پارٹیوں کے رہنما عاشورے کے بعد اس کے انعقاد کے حامی ہیں۔
ویسے شیخ رشید صاحب کو ذوالفقار علی بھٹو دور تو یاد ہوگا جب وہ خود طلبہ سیاست میں فعال تھے وہ گارڈن کالج راولپنڈی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ تب بھٹو کو بھی ایجنسیوں نے یہی رپورٹ دی تھی کہ اپوزیشن بٹی ہوئی اور غیر متحد ہے انہوں نے اچانک انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ایک دن میں ہی اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتحاد بنا کر پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابات لڑنے کا اعلان کر دیا اس کے نتیجے میں بھٹو صاحب اقتدار سے ہی نہیں جان سے بھی گئے۔ سمجھنے والوں کے لئے تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے مگر تاریخ ہی بتاتی ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔ آپ نے چین سے حکومت کرنی ہے تو ”موصوف“ کو لندن میں چین سے چہل قدمی کرنے دیں تصاویر سے ”تڑی“ لگانا چھوڑ دیں۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)
فیس بک کمینٹ