گذشتہ دنوں Carnelian کے زیرِ اہتمام دو روزہ ادبی و ثقافتی امن میلہ منعقد ہوا جسے ساؤتھ پنجاب لٹریری فیسٹیول 2019 ء کا نام دیا گیا۔ اس میلے کے تمام ترانتظامات اور ذمہ داریاں جناب شاکر حسین شاکر ، رضی الدین رضی اور ان کی ٹیم نے سنبھالیں۔جنوبی پنجاب میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا میلہ تھا، جس میں جنوبی پنجاب میں ادب اور امن کے فروغ کو مختلف زاویوں اور مختلف مکتبہِ فکر کی زبانی اس سطح پر پرکھا گیا۔اور مختلف موضوعات کو مذاکرے، تقریری مقابلے، مشاعرے اور محفلِ موسیقی کا انعقاد کر کے جانچا گیا۔یہ ساری نشستیں اور محفلیں مختلف جگہوں پر منعقد ہوئیں جن میں زرعی یونیورسٹی ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ، خواتین یونیورسٹی اور ملتان ٹی ہاﺅس شامل ہیں ۔میلے میں ماہرینِ تعلیم اور طلباءو طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ اس میلے کی ایک خوبصورت بات یہ بھی تھی کہ اس دوران ایک نشست اقلیت سے تعلق رکھنے والے دانشوروں ، شاعروں اور ادیبوں کے لئے بھی رکھی گئی جس کا عنوان ” جنوبی پنجاب کے ادب میں اقلیتوں کا حصہ اور مسائل“ تھا۔یہ نشست اس لئے بھی اہم تھی کہ اقلیتی شاعروں ، ادیبوں اور کالم نگاروں کی کاوشیں جنوبی پنجاب میں فروغِ ادب اور فروغِ امن کے حوالہ سے تو اکثر رہتی ہیں لیکن اِس نشست میں انہیں اپنے مسائل بتانے کا بھرپور موقع ملا۔ مسائل کی جنگ وہ خود بھی لڑتے رہے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ اور کسی کااس میں کوئی عمل دخل نہیں، میرا مطلب اکثریت سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنوبی پنجاب میں ادب اور امن کے فروغ میں ان کی جدوجہد جاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس میلے میں اس اہم اور حساس موضوع کو زیرِ بحث لانا اور اقلیتی لکھاریوں کی آواز کو جنوبی پنجاب کی فضاﺅں سے نکال کر قومی دھارے تک پہنچانا ایک جرات مندانہ کوشش ہے جس کے لئے میلے کے روحِ رواں جناب شاکر حسین شاکر رضی الدین رضی مبارکباد کے مستحق ہیں۔جنوبی پنجاب میں ادب کے فروغ میں اقلیتوں کاحصہ اور مسائل پر جناب ڈاکٹر کشور مراد کشور، ساحل منیر، ایوب جاذب، یوسف سلیم قادری، جاوید نذیر، ل۔م۔احمر اور راقم نے اظہارِ خیال کیا۔ جس میں اقلیتی شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں اور دانشوروں کے لئے بیشمار مسائل سامنے آئے۔ جن میں معاشی، معاشرتی، مالی، طبقاتی مسائل و مشکلات تھے۔ دراصل کسی شاعر، ادیب یا دانشورکو اقلیتی زمرے میں شامل کر دینا ہی بڑا مسئلہ ہے۔ اُسے پہچان دینے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اسے اقلیتی دائرے میں مقید کرنا سراسر زیادتی ہے۔ فن کار چاہے کسی بھی مذہب، رنگ، نسل، طبقے یا برادری سے ہو، اُسے اقلیت کے جال میں پھنسا دینامناسب نہیں بلکہ بالکل مناسب نہیں۔ وہ جب فروغِ ادب اور فروغِ امن کی بات کرتا ہے تو وہ کسی ایک انسان کے لئے نہیں ہوتی بلکہ پوری نسلِ انسانی کے لئے ہوتی ہے۔ جب وہ کچھ لکھتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو اس کے سامنے مذہب، رنگ اور نسل پھیکے پڑ جاتے ہیں۔اس کی تحریروں سے جب احساس کی وہ خوشبو پھیلتی ہے تو کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی، بلکہ نہ جانے کہاں کہاں پہنچ جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے سورج کی شعاعیں سب پر پڑتی ہیں۔ اور چاند کی چاندنی ہر ٹیلے اور ہر گھاٹی کو منور کرتی ہے۔ اس لئے پہچان کی حد تک ٹھیک سہی لیکن اجتمائی تبدیلیوں اور معاشرے میں انقلابی اقدامات میں حصہ ڈالتے ہوئے اقلیت کو اقلیتی دھارے سے نکال دیجیے۔ اِس میں کوئی شک نہیں اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فروغ ِ ادب اور فروغِ امن میلے میں اقلیتوں کی آواز کو شامل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شاید ہماری سمت بھی آجائے کوئی پھول
روشن کہیں بہار کے ارکان ہوئے تو ہیں
پورے میلے میں اقلیتی شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کو عزت و احترام دینااور پھر اختتامی تقریب میں اکثریت سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ تعلیم، شعرا، ادبا، کالم نگاروں، صداکاروں کو فروغِ ادب ، فروغِ امن ایوارڈ 2019 دینا اور اس میں مجھے بھی شامل کرنا باعثِ حوصلہ ہے کہ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی سب کو ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ آنکھوں کی ہی سچائی بہت سی سچی باتوں کی گرہ کھولتی ہیں۔