میری طالبعلمی کے زمانے میں 1950ء سے 1953 ء کے دوران ملتان میں متعدد مشاعرے ہوئے۔ ایک مشاعرہ قلعہ کہنہ پر ہوا جس میں نہ صرف پاکستان کے بلکہ کئی شعراءہندوستان سے بھی شریک ہوئے۔ مؤ خرالذ کر شعراءکراچی میں ڈان اخبار کے زیراہتمام پاک و ہند مشاعرے میں شرکت کے بعد واپس جاتے ہوئے ملتان اور لاہور میں بھی مشاعروں میں شرکت کر کے گئے۔ اُس زمانے میں آغا شیر احمد خاموش، مذاق العیشی اور متعدد دوسرے معروف شعراءملتان میں مقیم تھے۔ ملتان کے ایک شاعر، محمد ظفر محزوں اخبار نویس تھے، ان کا اخبار ”کارزار“ سہ روزہ تھا۔ان کا دفتر گھنٹہ گھر سے حسین آگاہی جانے والی سڑک پرسنیما کے بالمقابل تھا۔ اس عمارت کا داخلی دروازہ بہت بڑا تھا۔ محزوں صاحب دن بھر اسی گیٹ میں کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ وہ اپنے اخبار کے اداریے میں کالج اور طلباءکے خلاف لکھتے رہتے، جواب میں ہم طلباءجہاں کہیں مشاعرہ ہوتا، پہنچ جاتے اور انہیں خوب ہوٹ کرتے۔جس کے بعد کئی شماروں میں ہمارے خلاف لکھا جاتا۔یہ چھیڑچھاڑ اکثر جاری رہتی۔1952-53ءمیں ایمرسن کالج میں ایک مشاعرہ ہوا، جس میں ملک بھر سے چوٹی کے شعرائے کرام شریک ہوئے۔ پروفیسر سعادت علی شاہ صاحب کالج کے پرنسپل تھے، مشاعرے کی صدارت ملتان کے باذوق کمشنر جناب عنایت اللہ خان(I. U. Khan) کر رہے تھے۔کالج کا پنڈال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ طلباءکے علاوہ شہری بھی سامعین میں موجود تھے۔مشاعرہ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، شاعر بھی اپنا کلام پیش کر کے مطمئن تھے، سامعین بھی داد دینے میں کسی بخل سے کام نہیں لے رہے تھے۔ جب جناب محزوں صاحب کو دعوتِ کلام دی گئی تو ہم طلباءکے کان کھڑے ہو گئے۔اور حسب عادت ہوٹنگ شروع کر دی۔ محزوں صاحب نے اس بات کا بھی واسطہ دیا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں مگر طلباءایک نہ مانے۔ آخرکار انہیں مائیک سے ہٹنا پڑا، اور منتظمین نے ناصرکاظمی کو دعوت کلام دی۔ سامعین سنجیدگی سے نہیں سن رہے تھے۔ ناصرکاظمی ایک مصرع پڑھ کر واپس چلے گئے۔ ہمارے لیے یہ نیا تجربہ تھا کہ کوئی شاعر شورشرابے کی بنا پر از خود سٹیج سے ہٹ جائے۔
صاحب صدر نے مائیک پر آکر اعلان کیا کہ اگر طلباءمہمان شعراءکو سننے میں سنجیدہ نہیں ہیں تو وہ صدر کی حیثیت سے مشاعرے کے اختتام کا اعلان کر دیں گے۔ اس پر ہم سب نے یک زبان ہوکر شاعروں کو سننے کا وعدہ کیا، جس کے بعد مشاعرہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ دو تین شعرا کے بعد محزوں صاحب کو دوبارہ بلایا گیا مگر طلباءنے انہیں سننے سے انکار کر دیا۔ اس ہنگامے کے بعد مشاعرے کا ماحول بحال کرنے کے لیے جبیب جالب کو دعوت کلام دی گئی۔ جالب صاحب خوش شکل، خوش گلو اور مشاعرے کے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے مترنم کلام سے سامعین کو مسحور کر دیا، اور مشاعرہ بہتر ماحول میں جاری رہا۔
اس کے بعد سہ روزہ کارزار میں محزوں صاحب کے تلخ اداریے پڑھنے کو ملتے رہے۔ جن میں طلباءاور کالج کی انتظامیہ کو خوب رگیدا گیا۔ اتنا تو اُن کا حق بھی بنتا تھا۔
مشاعروں کا ذکر چلا ہے تو پاکستان بننے کے بعد ایک عرصے تک ہندوستان اور پاکستان میں مشاعروں میں شرکت کے لیے شاعر دوسرے ملک میں جاتے رہے۔ حضرت سیماب اکبرآبادی ایک قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کے شاگرد بھی لاتعداد تھے۔ انہیں جب کبھی کسی مشاعرے کی دعوت دی جاتی وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لاتے۔ یوپی اور پنجاب کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک طرح کی چپقلش رہتی تھی۔ چنانچہ لاہور کے مشاعروں میں یوپی سے آنے والے شاعروں پر اکثر چوٹیں کی جاتی تھیں۔ ساغر نظامی اس دور کے ایک معروف شاعر تھے اور وہ سیماب صاحب کے شاگرد تھے۔اُن پر متعدد بار لاہور کے مشاعروں میں چوٹ کی گئی جس کے جواب میں سیماب صاحب اپنے شاگردوں سمیت مشاعرے سے واپس چلے جاتے رہے۔ ایسی جملہ بازی عبدالمجید سالک صاحب اور لاہور کے دوسرے ادیب و شعراءکرتے تھے لاہور کے ادیبوں میں عبدالمجید سالک، محمد دین تاثیر اور ان کے ساتھی ، ”نیازمندانِ لاہور“ کے نام سے قلمی چھیڑچھاڑ بھی کرتے رہتے۔ یہاں ایک مثال دینا ہی کافی ہوگا۔ حضرت اصغر گونڈوی ایک قادرالکلام شاعرتھے، وہ جگر مرادآبادی کے استاد تھے۔ اصغر گونڈوی کا کلام ”نشاطِ روح“ کے عنوان سے شائع ہوا، جس کی تقریظ کسی وکیل صاحب نے لکھی تھی۔ لاہور سے شائع ہونے والے معروف ادبی رسالے” نیرنگِ خیال“ کے ایک شمارے میں کتاب میں شائع شدہ تقریظ شائع کی، جس پر یو پی کے رسائل میں اعتراض شائع ہوا کہ کتاب کا پیش لفظ جوں کا توں شائع کر دیا ہے، بغیر کسی حوالے کے۔ نیرنگِ خیال کے آئندہ شمارے میں اس مجموعہ کلام اور اس پر لکھی گئی توصیفی تقریظ کا اپریشن کر کے رکھ دیا گیا۔
شاعروں کا ذکر چلا ہے تو جناب حفیظ جالندھری صاحب کا بھی ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ حفیظ صاحب لاہور میں وائی ایم سی اے (YMCA) ہال میں شاہنامہ سنا رہے تھے۔ ایک وقفہ کیا اور حاضرین سے کہا کہ آپ درود شریف پڑھیں، اور خود ہال کے دروازے کے باہر کھڑے ہوئے سگریٹ پیتے رہے!
بعض شعرائے کرام کو اپنے قد کاٹھ کی بنا پر بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا۔ بہاولپور کے ایک شاعر جناب عبدالحق شوق استاد مانے جاتے تھے۔ ایک مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے۔ جب وہ خود کلام پیش کرنے کے لیے کرسی صدارت سے” اترے“ تو وہ اور بھی نیچے ہوگئے۔ ہم طلباءمیں سے کسی نے نعرہ لگایا”صاحبِ صدر کھڑے ہو کر کلام سنائیں!“