افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا سے پیدا ہونے والی ڈرامائی صورت حال میں صدر جو بائیڈن بدستور اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر نہ تو اس جنگ کو اپنے جانشین کے سپرد کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی امریکیوں کی ایک نئی نسل کو ایک ایسی جنگ میں جھونکنے کے لئے تیار تھے جس کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ تاہم انہیں اس فیصلہ پر شدید سیاسی مخالفت کا سامنا ہے اور متعدد ماہرین یہ جائیزے بھی پیش کررہے ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر انتہا پسند گروہوں کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ صدر بائیڈن کے فیصلہ کی وجہ سے بے یقینی اور بحران کی جو صورت پیدا ہوئی ہے، اس میں دنیا بھر میں سپر پاور کے طور پر امریکہ کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس اقدام سے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر امریکہ کی شہرت داغدار ہوئی ہے۔ وہائٹ ہاؤس سے ہونے والے اعلانات اور محض چند ہفتے پہلے تک صدر بائیڈن کی یہ یقین دہانیاں کہ افغان افواج کے پاس مناسب طاقت، دنیا کا بہترین اسلحہ اور تربیت موجود ہے۔ طالبان نام چند ہزار لوگوں کا گروہ امریکی تربیت یافتہ ، جدید اسلحہ سے لیس افغان فورسز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جو بائیڈن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرچکا تھا اور وہاں مزید قیام سے بھی کوئی فرق نہ پڑ تا۔
امریکی وہائٹ ہاؤس کابل پر طالبان کے قبضہ سے ایک دن پہلے تک یہ یقین کئے ہوئے تھا کہ خواہ افغانستان کے بیشتر صوبوں میں طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے لیکن وہ دارالحکومت کابل میں آسانی سے داخل نہیں ہوسکیں گے۔ امریکہ کو یقین تھا کہ افغان فورسز مضبوط حصار بندی کے ساتھ شہر کا دفاع کریں گی اور اس دوران اسلحہ کی ترسیل اور مرمت وغیرہ کا مناسب نظام استوار کرلیا جائے گا۔ اس طرح تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج نہ صرف کابل کی حفاظت کا مقصد حاصل کرلے گی بلکہ آہستہ آہستہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی طالبان کی کامیابیاں عارضی ثابت ہوں گی۔ تاہم اتوار کو طالبان نے اچانک دارالحکومت پہنچ کر اقتدار حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ عین اس وقت صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے اور پیچھے رہ جانے والے مصالحتی کونسل کے چئیرمین عبداللہ عبداللہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ صدارتی محل اور شہر کا کنٹرول طالبان کے سپرد کردیتے۔ یوں لگتا ہے کہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی لاگت سے کھڑی کی گئی فوج محض ریت کی دیوار تھی جسے طالبان کے ایک جھٹکے نے ڈھیر کردیا۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے میں جو بائیڈن کا اپنا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ ان سے پہلے جارج بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ افغان جنگ کی نگرانی کرتے رہے تھے۔ جارج بش نے ہی 2001 میں اس عزم کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تھا کہ اس ملک کو دوبارہ انتہا پسند گروہوں کا مسکن بننے نہیں دیا جائے گا۔ باراک اوباما اگرچہ عراق کے علاوہ افغانستان میں بھی جنگ ختم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس دوران یہی منصوبہ بندی ہوتی رہی کہ کیسے کوئی ایسا راستہ نکالا جاسکتا ہے جس میں امریکہ شکست خوردہ بھی دکھائی نہ دے اور افغانستان کی مہنگی اور مشکل جنگ سے نجات بھی مل جائے۔ اسی لئے اپنے پہلے دور میں باراک اوبامانے افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ کیا لیکن اس سے بھی طالبان کے حوصلے پست کرنے اور افغان حکومت کو مضبوط کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ اس وقت جو بائیڈن نائب صدر تھے اور اصولی طور پر افغانستان سے فوج واپس بلانے کے حامی تھے لیکن ان کے مشورے کو اہمیت نہیں دی جاسکی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے تعاون سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے اور انتخابات سے پہلے افغانستان کی جنگ ختم کرنے کی جلدی میں ایک ایسا معاہدہ کیا جس سے طالبان کی سیاسی حیثیت مضبوط ہوئی۔ طالبان نے اتحادی فوجوں پر حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا اور اس اصول پر اتفاق کیا کہ اقتدار ملنے کے بعد افغانستان میں کسی بھی ایسے گروہ کو پنپنے نہیں دیا جائے گا جو امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کے خلاف عزائم رکھتا ہو۔ تاہم اس دوران طالبان نے نہ تو دہشت گرد کارروائیاں بند کیں اور نہ ہی افغان فورسز کے خلاف جنگ بندی پر راضی ہوئے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان نے اس سفارتی مہارت کا ثبوت بھی دیا کہ انہوں نے براہ راست امریکہ سے تو مذاکرات کئے لیکن افغان حکومت کو اس کا فریق بنانے سے انکار کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کا یہ مطالبہ مان کر دراصل یہ اصول تسلیم کرلیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت ’جائز‘ نہیں تھی اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ درحقیقت طالبان کے ساتھ مل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ طالبان کو کابل میں حکومتی نظام کے کسی واضح ڈھانچہ پر رضامند کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہؤا تھا۔ فروری 2020 کے معاہدے میں یکم مئی 2021 تک تمام غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا وعدہ کیا گیا لیکن طالبان سے صرف یہ مبہم سا وعدہ لیا گیا کہ وہ نئے حکومتی ڈھانچہ کے لئے بین الافغان مذاکرات کریں گے جن میں افغان حکومت بھی شامل ہوگی۔ طالبان نے امریکہ سے معاہدہ ہونے کے بعد بین الافغان مذاکرات میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جو بائیڈن نے جب 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کا اعلان تو طالبان نے فوری طور سے افغانستان کو ’فتح‘ کرنے کے منصوبہ پر کام شروع کردیا تھا۔ افغان فورسز یا انخلا کرتی ہوئی اتحادی افواج کا تعاون، کسی مرحلہ بھی پر طالبان کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہا ۔
البتہ کابل پر اچانک قبضہ اور اس کے بعد امریکی سفارتی عملے، امدادی ورکرز اور اتحادی افواج کے ساتھ تعاون کرنے والے افغان کارکنوں کے انخلا کے لئے صدر جو بائیڈن کو پانچ ہزار تازہ دم فوجی افغانستان بھیجنا پڑے۔ اس ہفتے کے شروع میں کابل انٹرنیشنل ائیرپرٹ پر نظر آنے والے مناظر نے امریکیوں سمیت دنیا بھر کے ناظرین کو چونکا دیا۔ ان ٹیلی ویژن فوٹنگز اور تصاویر سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ امریکہ افغانستان چھوڑ کر بدحواسی میں بھاگ رہا ہے حالانکہ یو ایس ائیرفورس کے طیارے کے پیچھے بھاگنے والے یا ان پر سوار ہونے کی کوشش کرنے والے افغان شہری تھے جو خوف و دہشت کے عالم میں ملک چھوڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد پیدا ہونے والے اس خوف و ہراس کی ذمہ داری امریکہ اور جو بائیڈن کے عجلت میں کئے گئے فیصلے پر عائد کی جارہی ہے۔ بائیڈن اور ان کی حکومت اس تاثر کو ختم کرنے میں بدستور ناکام ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کابل میں پیدا ہونے والی افراتفری کا سارا بوجھ ٹرمپ حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ کئے جانے والے معاہدہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر ان کا بیان شکست خوردگی کا نمائیندہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’معاہدے کے تحت امریکہ یکم مئی تک افغانستان سے افواج نکالنے کا پابند تھا۔ طالبان نے واضح کردیا تھا کہ اگر اس معاہدے کے مطابق امریکہ نے انخلا مکمل نہ کیا تو وہ ایک بار پھر جنگ شروع کردیں گے۔ اس وقت طالبان بے حد مضبوط ہوچکے تھے اور انہیں شکست دینے کے لئے کثیر تعداد میں فوج افغانستان بھیجنا پڑتی جو کسی صورت درست فیصلہ نہ ہوتا‘۔ دو روز پہلے وہائٹ ہاؤس سے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے جو بائیڈن نے بھی اسی قسم کا مؤقف اختیار کیا۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب دینے میں ناکام ہے کہ امریکی حکومت کے پاس طالبان کی طاقت، حکمت عملی کے علاوہ افغان فورسز کے بودے پن اور اشرف غنی حکومت کی کمزور قیادت کے بارے میں کیوں درست اور قابل اعتبار معلومات موجود نہیں تھیں۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بہر حال جواب طلب رہے گا کہ بیس سال بعد ایک معاہدے کے نتیجے میں جنگ ختم کرتے ہوئے کیا طالبان کے ساتھ انخلا کے لئے مناسب اور باوقار طریقہ کار پر اتفاق کرنا بھی ممکن نہیں تھا؟
یہی کمزوری دراصل جو بائیڈن کے سیاسی کردار اور مستقبل کے بارے میں سنگین سوال بن کر سامنے آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے لئے جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں تھا لیکن اسے ختم کرنے کے لئے جس بدحواسی اور غلط اندازوں کا مظاہرہ ہؤا، اس نے بائیڈن کی سیاسی پوزیشن کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ درست تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو جو بائیڈن کو درحقیقت امریکی قوم کا محسن اور ایک حوصلہ مند لیڈر مانا جانا چاہئے۔ انہوں نے امریکی تاریخ کی طویل ترین اور سب سے مہنگی جنگ ختم کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ لیکن کابل ائیر پورٹ کے مناظر، افغانستان پر طالبان کا مکمل قبضہ اور امریکی حکومت کا یہ اصرار کہ افغان فوج اگر اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرنا چاہتی تو امریکہ کیا کرسکتا ہے؟ امریکہ کو ’بھگوڑی ‘ اور ذمہ داری سے بھاگنے والی قوم کے طور پر پیش کرنے کا سبب بنے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس فیصلہ سے جو بائیڈن قومی ہیرو کے درجے پر فائز ہوسکتے تھے، وہی ان کی صدارت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں ایک بہت بڑا سوال بن چکا ہے اور ان کی حیثیت ہیرو کی بجائے زیرو لگنے لگی ہے۔ تاریخ جو بائیڈن کو درست فیصلہ کرنے والے کے طور پر یاد کرنے کی بجائے، ایک طویل جنگ کو خجالت و شرمندگی کے ساتھ ختم کرنے والے صدر کے طور پر یاد کرے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )