وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دو گھنٹے پر محیط ملاقات میں اردن کے شاہ عبداللہ الثانی کا رویہ بزدلانہ، خوشامدی، انسانی حقوق وعوام کی خواہشات کے برعکس اور کسی بھی قومی لیڈر کی شان شایان نہیں تھا۔ وہ غزہ پر امریکی قبضے اور فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنے کے امریکی منصوبے پر بات کرنے واشنگٹن آئے تھے لیکن انہیں صدر ٹرمپ کے منہ پر اپنی ہی حکومت کایہ مؤقف بیان کرنے کا حو صلہ نہیں ہؤا کہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی قبول نہیں کی جاسکتی۔
ایک عرب ملک کے اس ’اصلی بادشاہ ‘ کے مقابلے محض نام کے ساتھ شاہ لگے ہونے کی وجہ سے شاہانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کے برعکس یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان، سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کسی ٹھوس حوالہ یا معاہدہ کے بغیر یہ بیان دیتے ہوئے پاکستانی ’شاہ‘ کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے لیے پاکستان نے ہمیشہ عالمی فورمز پر بھرپور بات کی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا برادر ملک اور بااعتماد ساتھی ہے۔ سعودی عرب کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت پر پاکستان کبھی آنچ نہیں آنے دے گا‘۔ شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے دبئی سمٹ میں غزہ کے حوالے سے پاکستان کا موقف بھرپور طور پیش کیا۔ 50 ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔ نسل کشی کی اس سے بدترین مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب امید کی جانی چاہیے کہ وہاں امن قائم ہوگا اور بحالی کے بعد انہیں زندگی گزارنے کے مواقع ملیں گے۔
شہباز شریف یہ باتیں ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب غزہ میں یرغمالی اسرائیلیوں کی رہائی پر پیدا ہونے والے تنازعہ کے بعد جنگ کے بادل پھر منڈلا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہفتہ کے روز تک یرغمالی رہا نہ ہوئے تو اسرائیل غزہ میں پھر سے جنگ شروع کردے گا۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل اب غزہ کو حماس کے جنگجوؤں کی بجائے وہاں آباد پچیس لاکھ فلسطینیوں سے ’پاک‘ کرنے کے منصوبے پیش کررہے ہیں۔ البتہ شہباز شریف سمیت عرب و مسلم ممالک کے لیٖڈر بے سر و پا دعوؤں اور حقائق کے برعکس بیان دے کر اپنا چھوٹا، قد اونچا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان لیڈروں کو قطعی اندازہ نہیں ہے کہ تاریخ میں مقام بنانے اور قوموں کی قیادت کا حق ادا کرنے کے لیے مدبرانہ انداز میں ٹھوس اور قابل عمل فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ اور مشکل وقت میں عوام کی پریشانی دور کرنے کے لیے ذمہ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ خواہ کیسے ہی گہرے اور قریبی تعلقات ہوں لیکن ان تعلقات کی بنیاد پر کوئی ایک ملک دوسرے ملک کی حفاظت کا اعلان نہیں کرسکتا۔ ایسا کوئی بھی بیان گمراہ کن اور عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو صرف اسی وقت دفاع میں مدد فراہم کرسکتا ہے جب وہ معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو اور عسکری لحاظ سے کسی بھی بڑی طاقت کو آنکھیں دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ موجودہ صورت حال میں چین اور روس کے علاوہ کوئی ملک بھی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے انہی کے لب و لہجہ بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ روس ، یوکرین جنگ کی وجہ سے شام میں بشارالاسد کی حکومت بچانے میں بھی کامیاب نہیں ہؤا اور مشرق وسطیٰ کو پوری طرح امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہوچکاہے۔ اس کے برعکس چین تصادم کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ کسی بھی ملک کو عسکری طور سے چیلنج کرنے کی بجائے معاشی و تجارتی طور سے خود کو مستحکم کرنے اور اپنا سفارتی و مالی اثر و رسوخ بڑھانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔
کابینہ سے خطاب میں شہباز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی ہر عالمی فورم پر حمایت کی ہے۔ یہ حمایت کرنا پاکستان کی مجبوری ہے، نہ کہ سعودی عرب، پاکستان کی طرف سے ایسی کسی امداد کا محتاج و ضرورت مند ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کی سالمیت کے لیے ڈٹ جانے کی بات ہے تو اس وقت یہ بات کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں تھا۔ نہ کوئی سعودی لیڈر پاکستان آیا اور نہ ہی پاکستانی وزیر اعظم سعودی عرب گئے۔ نہ سعودی عرب نے پاکستان سے دفاع کے لیے کوئی مدد مانگی اور نہ ہی سعودی عرب کی سالمیت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہے۔ پھر کسی ملک کو دفاعی سہولت پہنچانے کا اعادہ اسی صورت میں اچھا لگتا ہے جب دو ملکوں کے درمیان دفاعی معاہدہ ہو کہ مشکل وقت میں ایک د وسرے کی مدد کی جائے گی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ بھی موجود نہیں ہے۔ پھر نہ جانے شہباز شریف کس ترنگ میں اچانک سعودی عرب کو لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔
اس وقت حقیقی معنوں میں غزہ کی سالمیت اور وہاں پر رہنے والے 25 لاکھ فلسطینیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تسلسل کے ساتھ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے اور اس علاقے کو امریکی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ آج بھی جب مشرق وسطیٰ کے اہم ملک اردن کے شاہ عبدللہ الثانی الحسین اس معاملہ پر ارد ن کا مؤقف بیان کرنے وائٹ ہاؤس پہنچے تو وہ بھیگی بلی بنے ہوئے تھے۔ اوول آفس میں ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بلایا اور دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ امریکہ پوری طرح غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں سے فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے نکال دینے کے منصوبہ پر قائم ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ اردن سمیت ، مصر اور دیگر عرب ممالک اس معاملہ میں بھرپور تعاون کریں گے۔ تاکہ غزہ ایک اعلیٰ سیاحتی و تجارتی مقام بن جائے۔ گو دنیا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبہ کی مخالفت ہورہی ہے ۔ بلکہ نیوز ایجنسی رائیٹرز کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکی رائے دہندگان کی دو تہائی اکثریت نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ تاہم اردن کے شاہ حسین ، صدر ٹرمپ کا تفصیلی منصوبہ سننے کے باوجود کمزور لہجے اور نرم الفاظ میں بھی میڈیایا ٹرمپ کو یہ نہیں بتا سکے کہ ان کا ملک اور عرب دنیا اس منصوبہ کو قبول نہیں کرتی ۔ اردن ، غزہ سے نکالے گئے فلسطینیوں کو قبول نہیں کرے گا بلکہ وہ کسی ایسے منصوبہ کی مخالفت کرے گا۔ کیوں کہ اردن کے عوام اور حکومت نے یہی دوٹوک فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اردن کے اس ’ کاغذی شاہ‘ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی ناروا،غیر قانونی و غیر انسانی باتوں کو مسترد کرتے۔
اس موقع پر موجود میڈیا نے بار بار اردن کے شاہ سے دریافت کیا کہ کیا وہ صدر ٹرمپ کے منصوبہ میں تعاون کریں گے یا ان کے ملک کی کیا پالیسی ہوگی۔ ان سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک ہی جواب دہرایا کہ ’ ظاہر ہے ہمیں امریکہ کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہے، اور خطے کے لوگوں بالخصوص میرے اپنے اردن کے لوگوں کے مفادات کو بھی۔ہم اس پر تفصیلی بات کریں گے ۔ فوری طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم دو ہزار فلسطینی بچوں کو لے رہے ہیں جو کینسر کا شکار ہیں یا شدید بیمار ہیں۔اور پھر ہم مصر کے پلان کا انتظار کریں گے کہ کس طرح ہم صدر ٹرمپ کے غزہ چیلنج سے متعلق پلان پر کام کر سکتے ہیں۔ ہم سعودی عرب اور دیگر ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کس طرح صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں‘۔ کائیاں ٹرمپ نے اس پر انہیں سراہتے ہوئے کہا کہ’ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ غزہ سے کینسر کے شکار دو ہزار بچوں کو لے رہے ہیں۔ یہ خوبصورت اظہار ہے۔ اور میں اس کی تعریف کروں گا‘۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ ’ اردن کیوں فلسطینیوں کو اپنے پاس رکھے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ یہ سوال شاہ عبداللہ سے پوچھیں۔ بلکہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نہیں جانتا۔لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہیں۔ہم نے اس پر بات کی ہے۔آپ ابھی کچھ کہنا چاہیں گے‘؟ اس پر اردن کے شاہ عبداللہ الثانی نے کہا کہ’ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر مصر اور عرب ملک ان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم کس طرح سے کام کریں جو سب کے لیے فائدہ مند ہو‘۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے ملک میں شہشاہ معظم کے رتبے پر فائز ایک بودا شخص امریکی صدر کے سامنے گھگیانے کی کیفیت میں تھا لیکن ملاقات کے بعد ایکس پر ایک بیان میں یہ دعویٰ ضرور کیا کہ ’ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران میں نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف اردن کے مستحکم موقف کا اعادہ کیا۔ یہ عربوں کا متحدہ موقف ہے کہ فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو اور سنگین انسانی صورت حال سے عہدہ بر آ ہونا سب کی ترجیح ہونی چاہیے‘۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ شاہ عبداللہ دوئم میڈیا اور ٹرمپ کے سامنے یہ بات کہنے سے بچتے رہے۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور اردن کے شاہ کی ملاقات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی صدر غزہ کو خالی کرانے اور وہاں قابض ہونے کے دعوے پر قائم ہے لیکن عرب ممالک ابھی ملاقاتیں کرنے اور مل جل کر کسی منصوبے پر عمل کرنے ہی پر غور کررہے ہیں۔ اس ملاقات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کئی ہفتے پہلے درست طور سے دعویٰ کیا تھا کہ’ اردن اور مصر خواہ ان کے منصوبے کی مخالفت کرلیں لیکن وہ مان جائیں گے‘۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ