شعری اسلوب میں معنی آفرینی کے امکانات موجود ہوں تو فکر اور احساس کا فطری امتزاج وقت گزرنے کے باوجود اسے تر و تازہ رکھتا ہے ۔جناب رضی الدین رضی کا شعری اسلوب "دن بدلیں گے جاناں” کی کتابی صورت میں 1995میں منظر عام پر آیا مگر آج تک دن نہیں بدلے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دن بھی مابعد مارشل لا کے تھے اور آج بھی۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چل رہی ہے ۔۔۔۔
تبدیلی یا دن بدلنے کی خواہش میں 2025تک پہنچنے والی شاعری انٹرنیٹ پر "دن بدلیں گے خاناں "سے ہوتی ہوئی اس مقام پر آچکی ہے جب ایک دوسرے سے بدلے لینے پر مصر ہوتے ہوئے، ہمیں بالکل یقین نہیں ہے کسی بھی لحاظ سے دن بدلیں گے ۔چلیں کچھ سچی اور سیدھی سادی باتیں کرتے ہیں کیوں کہ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ آج اردو ادب کے طالب علم کو سب کچھ آتا ہے سوائے اردو کے ۔۔۔۔۔رضی الدین رضی صاحب ملتان میں ادب و صحافت کا معتبر حوالہ ہیں۔۔۔
آپ نے مزاحمت اور محبت کی شاعری بڑی خوبی پیش کی جو اس دور میں فیض وفراز کے شعری اسلوب سے منسوب خصوصیات تھیں۔۔۔رضی صاحب کتاب کے بیک فلیپ پر اپنی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
"یہ اس زمانے کی شاعری ہے جب میں ابھی سیکھنے کے عمل سے گذر رہا تھا ،اس کے باوجود اس کتاب میں شامل بہت سے اشعار زبان زد عام ہوگئے اس میں شامل کئی نظمیں "ستارے مل نہیں سکتے "سے بہت پہلے میری پہچان بن گئیں یہ کتاب ایک طویل عرصے سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھی مجھے اس مجموعے میں شامل بہت ہی غزلیں، نظمیں پسند ہیں کہ یہ شاعری اس،زمانے میں میری پہچان بنی جب میں ابھی اپنی شناخت بنانے کے عمل سے گزر رہا تھا ”
اس کتاب کے بعد رضی صاحب کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں مگر یہ کتاب انتساب کے حوالے سے ان کی پہلی محبت کے نام تھی لہذا انہیں یہ حساسیت جو ماہرین نفسیات کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد اور پریشان کن ثابت ہوتی ہے اس کتاب کو تیس سال بعد ایک بار پھر جدید رنگ و روپ میں پیش کرنے کے سلسلے میں معاون ثابت ہوئی۔۔۔بقول رضی صاحب۔۔۔۔۔۔۔
ہجر کا قصہ ہوں اور ٹوٹا ہوا پیمان ہوں
مختصر یہ ہے میں اک ہارا ہوا انسان ہوں
تجھ سے بچھڑا تو کئی چہرے شناسا ہوگئے
کیا خبر تیرے سوا کس کس کی اب پہچان ہوں
ورڈزورتھ کے مطابق” اچھی شاعری محسوسات کے فطری بہاؤ کا اہتمام کرتی ہے ۔۔۔اچھی شاعری ضروری نہیں کہ کسی نظریے کی تشہیر کرے بلکہ جذبے کی تہذیب و تطہیر کرے یہ ضروری ہے ۔”۔۔اور ہم فرسودہ معاشرے میں دن بدلنے کی خواہش میں جلنے والے تو اس بیزاری کے حامل لوگ ہیں جو حال کو کبھی اچھا نہیں سمجھتے اور ہمیشہ گزر جانے والے کل کی یاد میں مستقبل سے بھی بے زار رہتے ہیں۔۔۔ناسٹلجیا کے اسیر اور نرگسیت پسند جابجا موجود ہیں۔۔۔
بقول رضی الدین رضی
دل کو پھر خود سے تو بیزار نہیں کرسکتے
ہم کسی اور سے اب پیار نہیں کرسکتے
اپنے دشمن ہی سہی پھر بھی ترے کہنے پر
ہم کبھی خود کو تو مسمار نہیں کر سکتے
۔۔۔۔۔۔۔
نہ تکتے اس کو زمانے کی بات رکھ لیتے
ہمارا کیا تھا ہم آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے
رفتہ رفتہ سارے باغ پر اس کا قبضہ ہوگا جس نے
پھول کے بعد اک ٹہنی توڑی اور شجر تک آپہنچا ہے
وہ ملا ہے تو مجھے اب تلاش اپنی رضی
اک سفر کے بعد پھر سے اک سفر درکار ہے
رضی صاحب نے شعری لفظیات کے افتادہ پیکروں اور کلیشوں کی بھرمار اور تلمیحات کی فراوانی سے علیحدہ رہ کر اپنا شعری سفر اختیار کیا اور ان کا تہ دار اور متنوع کلام آج کے شعری تخلیقی عمل سے اس لیے تازگی میں مماثلت رکھتا ہے کہ وہ آج کے شاعر کا بھی ترجمان ہے
میں جب گھر سے نکلتا ہوں تو رستہ بھول جاتا ہوں
ہر اک رہرو سے کہتا ہوں
یہاں سب منزلیں، سب راستے کیوں ایک جیسے ہیں
( اجنبی شہر کا المیہ )
کتنے اچھے دن تھے ،جب خوشبو کو اپنے ساتھ لیے
جگنو کا پیچھا کرتے تھے
دن رات مہکتے رہتے تھے
کبھی خوشبو خود چھپ جاتی تھی اور کبھی ہم اس سے چھپتے تھے
یوں آنکھ مچولی رہتی تھی
کتنے اچھے دن ہوتے تھے
شعور محبت ،عذاب ،آگہی ،وجودیت، محبت بیزاری ،شناخت ،حقیقت نما استعاروں کے اسلوب سے مزین شاعری نے تجربے کی تازگی کو برقرار رکھتے ہوئے اس دور جدید میں بھی اپنی مقبولیت قائم رکھی ۔ کتاب میں شامل ناقدین فن جناب ڈاکٹر وزیر آغا اور جناب ڈاکٹر عرش صدیقی کے خصوصی مضامین بذات خود ان صبحوں کی یادیں ہیں جنھوں نے تاریک دنوں میں شاعری کرنے والوں کو روشن دنوں کی طرح سراہا ہے ۔
120 صفحات کی کتاب کو محض 600روپے میں چھاپ کر ،اپنے دوستوں ،شاگردوں اور مداحوں کو تحفہ کرنا رضی بھائی کا ہی خاصہ ہے جنھیں ہم سب تلخ مزاج اور کڑوی روح کہتے ہیں مجھے آپ نے یہ کتاب تحفہ کی میں تہہ دل سے مشکور ہوں۔۔ اہل ملتان جانتے ہیں ۔۔۔۔اپنے کتابوں بھرے تھیلے کو دفتر سمجھ کر ،زمانوں پر محیط یادوں خبروں اور رنگ برنگی باتوں کو ہمراہ لیے ، چہرے پر طنزیہ سی مسکراہٹ اور گہرے چشمے کو درست کرتے ہوئے ،خود سے تلخ و شیریں باتیں کرتے ،بڑبڑاتے ہوئے رضی بھائی نے اپنی ایک عمر ادب و صحافت کو وقف کی ہے۔۔۔۔ آپ ہمارے لیے باعث احترام ہیں اور سرمایہ ملتان ہیں اردو شاعری سے شغف رکھنے والے باذوق قارئین اور طالب علموں سے درخواست ہے کہ اس14 فروری کو پھول خریدیں نا خریدیں یہ کتاب یہ سوچ کر ضرور خرید لیجیے گا کہ دن بدلیں گے جاناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ