وادی کشمیر سے محبت اور ابر بہار میں جلتے ہوئے چناروں کا تصور نیلی جھیلوں میں آنسوؤں اور سانسوں میں بارود کی فراوانی سماعتوں میں آہ و زاریاں سسکاریاں اور آہنی ٹینکوں تلے آز ادی آز ادی حریت کی پکار یہ منظر نامہ فقط ہر پانچ فروری کو دنیا کے سامنے نہیں آتا بلکہ یہ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں پر جبروستم کا سلسلہ بہتر برسوں سے جاری و ساری ہے۔سب جانتے ہیں کہ ایشیا ایک نیوکلیر رنگ ہے ۔اور بھارت اس نیوکلر رنگ میں آگ سے کھیل رہا ہے طاقت کے ذریعے اپنے نام نہاد سیکولرازم کی دھونس جبر و غلامی کے ایکٹ اور سیاسی منہ زوری کے تحت اپنے مفادات کی جنگ میں مظلوم کشمیریوں کے خون سے اپنی تاریخ لکھ رہا ہے۔
سیاسی قائدین کی بندش، جیلیں، لاپتہ افراد کی طویل فہرستیں، لاک ڈاؤن معصوم نہتے بچوں پر پیلٹ گنوں کے انسانیت سوز حملے اور سب سے اندوہناک بے بس لاچار کشمیری ماؤ ں، بہنوں ، بیٹیوں اور کم سن بچیوں کی عصمت دری کشمیر کی حق خود ارادیت اور مکمل آزادی کو اور کیادرکار ہےایک جرمن نازی افسر کے مطابق ”عقوبت خانوں میں کیوں کا لفظ نہیں ہوتا “ وادئ کشمیر بھی کشمیری خواتین کے لیے ایک ایسا ہی عقوبت خانہ بن چکی ہے ۔ایک کشمیری شاعرہ کے پرسوز قلم کے مطابق ”ہم نے گھر بنانے کے لیے اس نامراد چکر میں ۔۔۔تیلیاں بچائیں ۔۔۔انگلیاں جلائیں “
کشمیری خواتین کے غم و احتجاج دنیا ئے سیاست کو ایک خوں ریز تصویر کا وہ رخ بھی دکھاتے ہیں جس میں کشمیری خواتین عزم و استقلال کا ایسے پیکر نظر آتی ہیں جو اس جنت نظیر وادی میں جہنم زار کی عکاس بھی ہیں اور سراپا عزم مصمم بھی ۔جب حل کی بجائےیہ جواز سنتی ہیں کہ ”کشمیر کی آز ادی کیسے ممکن ہے ۔اگر کشمیر مکمل آز اد ہوتا ہے تو چاروں طرف سے خشکی میں محصور land lock ہونے کی وجہ سے یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا بھارت اسے مکمل آز اد نہیں ہونے دے گا۔اس کی جارحیت کا سلسلہ تھمنے والا نہیں “تو ان کے جذبات کی عکاسی نامور شاعرہ نسرین نقاش یوں کرتی ہیں کہ ”
فنا کے تیر ہوا کے پروں میں رکھے ہیں
کہ ہم گھروں کی جگہ مقبروں میں رکھے ہیں
جواز کیا دیں عدالت کو بے گناہی کا
ہمارے فیصلے دانشوروں میں رکھے ہیں
ہمارے عہد کا انجام دیکھتے کیا ہو
ہم آئینے ہیں مگر پتھروں میں رکھے ہیں
کشمیری خواتین کو اپنے مصائب کا بخوبی ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے وطن کے حالات کے بارے میں بڑے حوصلے سے کہتی ہیں ”کہ اب یہ حالات ہماری مستقل یادیں ہیں ۔جنھیں ہمیں ہر قیمت سنبھالنا ہوگا “۔زرد پتوں کا ڈھیر “کی تخلیق کار کشمیری شاعرہ جنھیں ملیکا سین گیتا ایوارڈ اور ساہتی اکادمی کا یواپرسکار بھی دیا گیا ہے حراستی گمشدگی اور ظلم کی انتہا کے حوالے سے کشمیری ماؤ ں کے دل دوز احساسات کی یوں عکاسی کرتی ہیں ۔
” جنھیں گولیوں سے مار دیا گیا
وہ تو قبروں میں ہی موجود ہیں
لیکن جو ماؤں کے آنچل تلے نیند میں تھے
اور پھر غائب کردئیے گئے
وہ کہاں ہیں ؟“
ذہنی تناو نفسیاتی دباؤ سے ستر فی صد کشمیری خواتین اپنے مقتول شوہر وں کے غم اور ان کے بعد اپنے یتیم بچوں کی پرورش و روزگار کے حوالے سے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں تشدد قتل و غارت گری کی اس دنیا میں کریک ڈاون جعلی مقابلے گمشدگیاں بہیمانہ تشدد اور آز اد میڈیا تک رسائی نہ ہونا ۔۔ایک انسانی المیے کو جنم دے چکے ہیں جن کا فوری حل ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کے مندوبین کے گلوگیر لہجے بیانیے اقوام عالم کے سامنے اس حققیت کو بھی بیان کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ بقول شاہدہ لطیف
کسی ستم کسی تلوار سے نہیں ڈرتے
یہ لوگ ظلم کی دیوار سے نہیں ڈرتے
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے مطابق گذشتہ دس برسوں میں گیارہ ہزار خواتین کے ساتھ انفرادی بدسلوکی اجتماعی آبروریزی کے واقعات بھارتی افواج کی جانب سے بدترین ثقافتی ہتھیار کے نام پر رونما ہوئے ۔امن دشمن بھارت کے مذموم عزائم کا شکاربننے والی کشمیری خواتین پوری دنیا کے لیے ایک المیہ، ایک التجا ،ایک پکار اور عالمی ضمیر پرایک طمانچہ تو ہیں مگر ایک للکاربھی ہیں کہ ہم اپنی آزادی کے لیے دی گئی بیش بہا قربانیاں رائگاں نہیں جانے دیں گی ۔
تشدد کی ریاستی سرپرستی کے خصوصی اختیارات تفویض کردہ ایکٹ 1990 ہو یا جنوری 2018 میں درندگی کی لرزہ خیز داستان ”کٹھوعہ عصمت دری کیس “ ان مکروہ افعال کے لیےبھارتی افواج اپنے ظالمانہ فعل و عمل کے لیے جواب دہ تک نہیں گذشتہ تیس سال سے میڈیا کے ذریعے تشدد اور قتل کے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے مگر کسی ایک بھارتی افسر و اہل کار کو عدالت کے کٹہرے میں پیش ہونا پڑا اور نہ ہی کبھی سزا سنائی گئی ۔جموں کشمیر کی نامہ نگار بینو جوشی کے مطابق بھارتی قانون کے نئے جبر کے لحاظ سے اگر کشمیری خاتون کسی غیر کشمیری سے شادی کرتی ہے تو وہ سرکاری نوکری حاصل کرسکتی ہے اور نہ زمین و جائیداد کا ملکیتی حق رکھ سکتی ہے ۔
انسانی حقوق کی پامالی کے ضمن میں امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں طویل لاک ڈاون کے دوران ناقابل بیان حد تک کشمیری خواتین اذیت کا شکار ہوئیں ایک طرف حاملہ خواتین اور بیمار بزرگ عورتوں کی تکالیف ۔دوسری جانب اپنے گھر کے مردوں کی گرفتاریوں پر اذیتوں کے پہاڑ ۔سیکیورٹی کے نام پر ہزاروں غیر مقامی فوجی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ۔باہر نکلنے پر ہراسمنٹ کا سامنا اور گھروں کے اندرزندگی کی بنیادی ضرورتوں کو ترستے ہوئے بے کس و لاچار بچوں کے سوالات کی بوچھاڑ ماں بابا کب آئیں گے ۔پیلٹ گنوں کے حملے ۔۔۔نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد استحصال و پامالی کی صورت حال ۔ہر دن جبر اور ہر رات عذاب ۔۔۔۔وادی میں چھوٹے چھوٹے گھروں کے اندر
جنازے فاتحہ خوانی کے دل سوز مناظر اور زندگی کی ذرا ذرا سی خوشیوں تک پر پابندیاں کشمیری خواتین کے حوصلے پسپا نہیں کرسکتیں ہر دردمند پاکستانی اس وادئ جنت نظیر کو سلگتے ہوئے دیکھ کر یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے
”یہ فقط تیرا نہیں میرا وطن جلتا ہے “
اب وقت آجانا چاہیے انصاف کا آزادی کا اور کشمیر کی ماؤں بہنوں کی عزت نفس اور احترام کی ضمانت دلوانے کا اکیسویں صدی میں امید ہے کہ امن آز ادی اور انسانیت کے علم بردار جلتے چناروں کے تلے بجھتے ہوئے چراغوں کو روشن کرنے والی اشک بار آنکھوں کو ضرور دیکھیں گے ۔۔۔۔اور کشمیری خواتین کی قربانیاں ان کی آز ادی حق خود ارادیت کی دلیل بن کر عالمی انصاف پسندوں کے ضمیر کو جگانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
فیس بک کمینٹ