نقوش والے محمد طفیل صاحب نے شخصیات نمبر کے لیے شاہداحمد دہلوی صاحب سے جوش ملیح آبادی کا خاکہ لکھوایا۔ شاہد صاحب نے جو کچھ لکھا اُسے طفیل صاحب کی تاجرانہ حس نے قابل اشاعت نہ سمجھتے ہوئے، خاصی قطع و برید کے بعد نقوش میں شائع کیا۔ شاہد احمد دہلوی صاحب کو بہت غصہ آیا کہ اس معمولی ناشر محمد طفیل کی یہ جرات کہ اُن کی تحریر میں ”تحریف“ کرے۔ چنانچہ شاہد صاحب نے اپنا ”اصل مضمون“ کراچی کے ایک رسالے میں شائع کر دیا۔ادھر جوش صاحب کو بھی دوستوں نے ہشکایا اور اُن سے اس خاکے کے جواب میں اپنی ”صفائی“ میں لکھواکے شائع کرا دیا۔ کراچی سے شائع ہونے والے ”نقش ڈائجسٹ“ میں شمس زبیری نے ہر دو مضامین ایک ہی شمارے میں شائع کردیے۔انہی دنوں زبیری صاحب گورنمنٹ کالج حیدرآباد ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے تو میں نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کس قسم کی چیزیں چھاپتے ہیں؟ اس پر ان کا جواب تھا ”ادبِ عالیہ“ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے اُن سے برجستہ کہا، کیا ادبِ عالیہ شائع کرنے کے بعد آپ اسے چھپاتے پھرتے ہیں کہیں آپ کی والدہ، بہن، بیوی یا بیٹی اسے نہ دیکھ لے! اُن کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
جہاں تک جوش صاحب کا تعلق ہے، انہوں نے ایک خوبصورت زبان میں بہت کچھ لکھا مگر اپنے اوپر لگائے گئے ”الزامات“ کے حوالے سے صرف اتنا لکھا: ”شاہد میاں آپ تو نیک آدمی ہیں، نیکوں کی اولاد ہیں؛ نیک لوگ بروں کی برائی اچھالتے نہیں بلکہ اسے چھپاتے ہیں“۔ جوش کے معصومانہ اعتراف کے بعد بات ختم ہو جانا چاہیے تھی، مگر شاہد صاحب نے ہندوستان کا ایک چکر لگایا، لکھنو، دہلی، ملیح آباد، حیدرآباد دکن اور دوسرے شہروں میں جاکر وہاں سے بہت سے لوگوں سے جوش کے خلاف لکھوا کر لائے۔ ان تحریروں میں بعض تو چند جملوں کی تھیں اور بعض کئی صفحات پرپھیلی ہوئی تھیں۔ واپسی پر شاہد صاحب نے رسالہ ”ساقی“ کا جوش نمبر شائع کیا۔ جو تقریباً پانچ سوصفحات پر محیط غلاظت کا پلندہ تھا ۔
اگر شاہد صاحب کچھ دیر انتظار کر لیتے تو انہیں وہ سب کچھ ایک خوبصورت انداز میں ”یادوں کی بارات“ کی صورت میں پڑھنے کو مل جاتا۔
فیس بک کمینٹ

