میرے والد صاحب زرگری کا کام کالے منڈی بازار میں کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار مَیں گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ سے چھٹی کے بعد اُن کے پاس چلا جایا کرتا تھا یا گرمی کی چھٹیوں میں ہفتے میں دو تین مرتبہ سیر سپاٹے کے طور پر اُن کی دکان پر دوپہر کا کھانا پہنچانا بھی معمول تھا۔ یہ بات 1980ءکی دہائی کی ہے۔ اُس زمانے میں میرے ابو جان کے ایک دوست محمد عارف دلّی والے سونے کی چوڑیوں کا کام کیا کرتے تھے۔ عارف صاحب کا کارخانہ ایک چوبارے پر تھا۔ کبھی کبھار مَیں ابو کے ساتھ عارف صاحب کے پاس بھی جایا کرتا تھا۔ عارف صاحب اپنے پہلو میں پاندان رکھتے تھے اور مسلسل وہ پان چباتے رہتے۔ گرمیوں میں کرتا پاجامہ اور سردیوں میں شلورا قمیص اور سویٹر زیبِ تن کرتے۔ کچھ عرصہ قبل جب عارف صاحب کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جن میں سے ایک بیٹا CSS کر گیا، دوسرا پی ایچ ڈی کر کے درس و تدریس کے ساتھ منسلک ہو گیا اور تیسرے نے مشتاق احمد یوسفی والا پیشہ اپنایا کہ وہ بینکر ہو گیا۔ عارف صاحب کے تینوں بیٹے مجھ سے میرے والد صاحب کی وجہ سے محبت کرتے ہیں اور مجھے بھی یہ وضع دار نوجوان بہت عزیز ہیں۔ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر محمد آصف آج کل شعبہ اُردو بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے ایم۔اے اُردو، ایم۔اے فارسی، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ ایک محنتی نقاد اور معروف محقق ہونے کے ساتھ وہ روایتی شاعری بھی کرتے ہیں لیکن مشاعروں میں بطور شاعر شریک نہیں ہوتے۔ وہ بڑی محنت سے تنقید و تحقیق کا کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے گرد مشتاقانِ علم و ادب کا ہجوم رہتا ہے۔ انہوں نے پی ایچ ڈی ”اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش فکرِ اقبال کے تناظر میں“ کی۔ اقبالیات پر اُن کا یہ کام اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ انہوں نے اسلامی اور مغربی تہذیب کے پس منظر میں کلامِ اقبال کا جائزہ لیا۔ وہ ملتان کے شعری ادب پر بھی خاصی نظر رکھتے ہیں۔ اُن کی ایک کتاب ”حزیں صدیقی: شخصیت اور شاعری“ شائع ہو کر ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ گاہے گاہے مختلف رسائل کو اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد آصف کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقلِ کُل نہیں جانتے لیکن وہ معاصر ادب کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں جس وجہ سے اُن کے مضامین میں جو تنوع ہے وہ اُن کے ہم عصروں میں دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جتنے دھیمے انداز سے بات کرتے ہیں اسی طرح سے وہ اپنے لکھنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی نئے موضوع پر کام کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی تازہ کتاب ”اقبال اور نیا نوآبادیاتی نظام“ (مابعد نوآبادیاتی سیاق میں افکارِ اقبال کا مطالعہ) منظرِ عام پر آئی ہے۔ اقبالیات پر ہمارے ہاں بڑی سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے اور ہمیں خوشی یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد آصف ملتان بیٹھ کر اقبالیات کے اُن گوشوں پر کام رہے ہیں جو اس سے پہلے علامہ اقبال پر نہیں ہوا۔ اُن کی یہ کتاب اقبالیات کے نئے گوشے وا کرتی ہے جس میں انہوں نے بڑی مہارت سے مابعد نوآبادیاتی سیاق میں کلامِ اقبال کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے ایک مشکل موضوع کو بڑی آسانی سے نہ صرف تحریر کیا بلکہ کسی بھی جگہ پر کتاب پڑھتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم ایک مشکل موضوع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد آصف خود لکھتے ہیں:
”اقبال اُردو کے پہلے باقاعدہ شاعر، نثرنگار، مفکر، ادیب اور دانشور ہیں جنوں نے اتنی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ نوآبادیاتی نظام کی روح کو پہچانا ہے۔ ان کے ہاں استعماری سامراجی نظام کے مقابلے میں ایک انسانیت نواز نظام نئے عالمی نظام کے اشارے پوشیدہ ہیں۔ اقبال اس نئی احتجاجی اور مزاحمتی جمالیات کے موجد ہیں۔ ان کی تخلیقی مزاحمت نئی انسانیت کی تعمیر کے لیے ہے۔ وہ صحیح معنوں میں حسن و محبت، حب الوطنی، انسانی اقدار کی بالادستی، حریت، مساوات، اتحادِ نوع انسانی، معاشی و سماجی انصاف، بین الاقوامی امن و امان، انسان دوستی اور مساوات پر مبنی ایک بین الاقوامی عالمی نظام کے شاعر، مفکر اور ادیب ہیں۔ تصوراتِ اقبال کے یہ وہ عملی ممکنات ہیں جو عموماً نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں انہی مابعد نوآبادیاتی ممکنات کا تجزیہ افکارِ اقبال کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ آج ہم ایک پیچیدہ مابعد نوآبادیاتی معاشی استعماری عہد میں زندہ ہیں۔ آج ہمیں ضرورت ہے ایسے مفکرین، دانشور اور سیاسئین اور ادباءکی جن کی فکر اس پیچیدہ صورتحال میں ہماری درست سمت کی طرف رہنمائی کر کے خوبصورت کشادہ دنیا کی تعمیر میں مدد دے سکے۔ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس اس وقت اقبال موجود ہیں ہم نے دیکھنا ہے کہ آج ان کے خیالات ہماری کیا رہنمائی کر سکتے ہیں اور آج اس مابعد نوآبادیاتی سیاق میں ان کے تفکر کی کیا معنویت بنتی ہے۔ چنانچہ آئندہ صفحات میں آج کے ان سنگین اجتماعی مطالبات کا تجزیہ اقبال کے افکار کی روشنی میں اور اقبال کے افکار کا تجزیہ ان اجتماعی مطالبات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔“
ڈاکٹر محمد آصف کا تحقیقی کام اس اعتبار سے اہم ہے کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے باوجود پیسہ کمانے کے لیے نصابی کتب نہیں لکھ رہے بلکہ انہوں نے ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا اس سے اُن کے ادب کے سنجیدہ طالب علم ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور مجھے ڈاکٹر محمد آصف کو دیکھ کر ہمیشہ خوشی اس لیے ہوتی ہے کہ اُن کے والدِ گرامی نے شکر ہے اپنے بچوں کو زرگری کی طرف مائل نہیں کیا بلکہ اُن کو سونے سے بھی قیمتی ”قرطاس و قلم“ سے محبت کی تعلیم دی جو آج اُن کے لیے ایک شاندار تعارف کا باعث ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جو لوگ کلامِ اقبال یا اقبال کے افکار سے محبت کرنا چاہتے ہیں انہیں ڈاکٹر محمد آصف کی ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ جنوبی پنجاب میں ڈاکٹر محمد آصف کی شکل میں ایک ایسا نقاد اور محقق موجود ہے جو اقبالیات کے نئے گوشے اہلِ علم کے سامنے لا رہا ہے۔
فیس بک کمینٹ