کیا خوبصورت اتفاق ہے۔ تیس اکتوبر 2011 ء کومینار پاکستان پر ہونے والے تحریک انصاف کے شہرہ آفاق جلسے میں عمران خان جب پیپلز پارٹی کی ملک کو برباد کرتی ہوئی معاشی پالیسیوں پر الفاظ کے کوڑے اور تقریر کے جوتے مار رہے تھے تب پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسیاں بنانے کا سارا سہرااس وقت کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے سر جاتا تھا۔ آج وہ پاکستان کی تباہی سے دوچار معیشت کے مسیحا کے طورپر لائے گئے ہیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی تباہی عمران خان کی نو ماہ کی حکومت کا کارنامہ نہیں بلکہ گزشتہ حکومتوں کا اور خاص طور پر اسحاق ڈار مارکہ معاشی پالیسیوںکا نتیجہ ہے۔ یہ وہ پالیسیاں تھیں جو سب کو نظر بھی آ رہی تھیں اور اس کے دور رس نتائج کا بھی سب کو علم تھا ۔تو سوال صرف یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ حکومت کے معاشی اقدامات کے طفیل بے تحاشا قرضوں کے انبار اور مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنا سب کو نظر آ رہا تھا اور تحریک انصاف والے اس پر تنقید کے کوڑے بھی برسا رہے تھے مگر وہ اس کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے؟ کیا ان کی ذمہ داری بطور اپوزیشن صرف اور صرف تنقید تھی؟ایک متوقع حکمران کے طور پر کیا ان کے پاس کوئی ایسا قابل عمل معاشی پروگرام تھا جس کے طفیل وہ ان ساری خرابیوں کا مداوا ثابت ہوتے؟ کیا پاکستان کی خراب معاشی صورتحال صرف اور صرف سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کی کہانیوں سے دور ہو جائے گی؟ کیا ان کی کرپشن کا مسلسل ذکر ڈالر کی قیمت کو مستحکم کر سکتا ہے؟ کیا ہمہ وقت کرپشن کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دینے سے مہنگائی کا جن قابو میں آ سکتا ہے؟ کیا نواز شریف اور زرداری کو کرپشن میں سزا ہو جانے پر ہر سال کا بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ تجارتی خسارہ پورا ہو سکتا ہے؟ اور کیا ملک کے وزیراعظم کی صرف ایک ذمہ داری ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹنے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کرے؟
گزشتہ حکمران بلاشبہ چور تھے‘ بلکہ سچ پوچھیں تو ڈاکو تھے۔ لیکن معاملہ تو آج کا آن پڑا ہے۔کیا ان پر مسلسل تبراکرنے سے معاشی صورتحال میں کوئی بہتری پیدا ہو سکتی ہے؟ کیا سابقہ حکمرانوں کو خراب ثابت کر دینے سے موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی بغیر کچھ کیے بہتر ہو سکتی ہے؟ کیا کسی کو برا ثابت کرنے سے ہم اچھے بن سکتے ہیں؟ ان سب سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ کرپشن پکڑنے والے ادارے مضبوط کرے اور پھر ان کا کام ان پر چھوڑ دے۔ پھر وہ گزشتہ حکومت کی خرابیاں اور سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں بیان کرنے کے بجائے عوام کے لئے بہتر کل کا بندوست کرے۔ ان کے لئے زندگی آسان بنائے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرے۔ عوام نے پہلے برے حکمران بھگتے اور اب گزشتہ نو ماہ سے ان برے حکمرانوں کے قصے سن رہے ہیں۔ پہلے وہ خود ان پر مسلط تھے اور اب ان کے قصوں نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ نئی حکومت کہاں ہے جو ان کی زندگی بدل دے؟
آپ نے کرپشن کو اور عدل و انصاف کو الیکشن کا مرکزی نقطہ بنایا اور عوام کو آگاہی اور شعور دیا۔ اس بنیادی نقطے کے زور پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب آپ کے پاس آگے کا کیا پروگرام ہے؟ دنیا کے بڑے حکمران ماضی میں نہیں حال میں رہتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت ماضی کی لکیر پیٹنے کے بجائے آئندہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔ ہم عجب بدقسمت لوگ ہیں۔ پہلے برے حکمران بھگتتے ہیں اور پھر ان برے حکمرانوں کی خرابیوں اور برائیوں کی گردانیں سنتے ہیں۔ ہم پر مسلط برے حکمران جا کر بھی ہماری جان نہیں چھوڑتے اور ہم پر سوار رہتے ہیں۔
خان صاحب! نواز شریف اینڈ فیملی اور زرداری اینڈ کمپنی کی کرپشن سے نپٹنے کے لئے اداروں کو ان کی ذمہ داری سونپیں کہ حکمرانوں کا کام ادارے بنانا اور ان کی مضبوط کرنا ہے۔ وزیراعظم بنیں۔ جو کام آپ گزشتہ نو ماہ سے کر رہے ہیں وہ کام تو آپ گزشتہ ایک عشرے سے مسلسل کر رہے ہیں۔ اس کے طفیل عوام نے آپ کو حکمرانی بخشی کہ آپ ان کے سر سے تاریکی کی چادر کھینچ کر روشن دن کا آغاز کریں۔ مگر آپ وزیراعظم بننے کے بجائے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن بنے پھر رہے ہیں۔ نہ یہ آپ کا مرتبہ ہے اور نہ ہی کام۔ نہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی آپ کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ آپ وہ کریں جو حکمران کرتے ہیں اور جس کی آپ سے امید تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی تعمیراتی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو کمپنی چلانے کے بجائے کیل اور ہتھوڑی اٹھا کر خود دروازے لگانا شروع کر دے۔ یہ کام کمپنی کے چھٹے درجے کے ملازم کسی کار پینٹر کا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کا نہیں۔
اچھی ٹیم کا انتخاب ہی دراصل اچھے کام کی شروعات ہے۔ اور ٹیم کیا ہے؟ عثمان بزدار‘ عامر محمود کیانی‘ سمیع اللہ چوہدری‘ فواد چوہدری‘ غلام سرور خان‘ شہر یار آفریدی‘ اعجاز احمد شاہ اور اللہ معاف کرے اب فردوس عاشق اعوان۔ فیاض چوہان کی چھٹی ہوئی ہے مگر شنید ہے کہ اسے دوبارہ کسی اور وزارت پر لگایا جانے والا ہے۔ فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت عطا کر دی گئی ہے۔ شہر یار آفریدی کو داخلہ سے سیفران۔ غلام سرور خان کو پٹرولیم سے ایوی ایشن اور چند ماہ پہلے فارغ ہونے والے اعظم سواتی کو پھر سے وزارت کا قلمدان۔ بھلا وزارتیں بدلنے سے بات بنتی ہے؟ بندے بدلنے سے معاملات بدلتے ہیں۔
جہاز کا کپتان (اس کپتان سے مراد برادرِ بزرگ ہارون الرشید والا کپتان نہیں) ڈیک پر آیا تواس کا ناک بدبو سے سڑ گیا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا کہ آخر یہاں کس چیز کی اتنی بو ہے۔ کافی دیر تک ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ یہ ساری بدبو خلاصیوں سے آ رہی ہے۔ کپتان نے ان سے پوچھاکہ وہ نہائے کب تھے اور انہوں نے آخری بار کپڑے کب تبدیل کیے تھے؟ پسینے سے شرابور خلاصیوں نے کہا کہ انہوں نے تین ماہ پہلے آخری بار نہا کر کپڑے بدلے تھے۔ کپتان نے حکم نامہ جاری کیا کہ کل سب خلاصی کپڑے تبدیل کریں۔ اگلے روز کپتان دوبارہ عرشے پر آیا تو بدبو اسی طرح تھی۔ کپتان نے قریب جا کر سونگھا تو یہ بو بدستور خلاصیوں کے کپڑوں سے ہی آرہی تھی۔ کپتان غصے سے چلایا کہ اس نے کل حکم دیا تھا کہ سارے خلاصی اپنے کپڑے تبدیل کریں‘ اس کے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی گئی۔ خلاصیوں کا انچارج کہنے لگا: سر! سب خلاصیوں نے اپنے کپڑے تبدیل کیے ہیں۔ پھر خلاصیوں کو مخاطب ہو کر بولا۔ سب بتاؤ کہ کس نے کس سے کپڑے تبدیل کئے ہیں۔ جان بولا: اس نے پیٹر سے کپڑے تبدیل کئے ہیں۔ الیگزینڈر نے بتایا کہ اس نے اپنے کپڑے وکٹر سے تبدیل کئے ہیں۔ جارج نے ولسن سے‘ ولیم نے ٹام سے۔ چارلس نے بتایا کہ اس نے ا پنے کپڑے ہنری سے‘ فلپ نے جیکب سے اور اسی طرح باقی سب خلاصیوں نے بھی ایک دوسرے سے اپنے کپڑے تبدیل کر لئے ہیں۔
پنجابی کی ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے ”جو یہاں خراب ہے وہ لاہور میں بھی خراب ہوگا‘‘۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اور ق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومتیں نالائقوں‘ نااہلوں اور بے ایمانوں کا مجموعہ تھیں۔ اب وہی سب لوگ آپس میں کپڑے تبدیل کر کے پی ٹی آئی کی حکومت چلانے میں مصروف ہیں۔
کل ایک پی ٹی آئی کے بڑے توپچی قسم کے دوست سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصہ پہلے کہا کرتا تھا کہ ”اوپر لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے ٹیم خود بخود کام صحیح کرتی ہے‘‘۔ کل ملا تو کہنے لگا ”جب نیچے ٹیم ہی ٹھیک نہ ہو تو اوپر خان کیا کرے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ