اردو میں حسیاتی اور نفسیاتی کینوس کو سامنے رکھتے ہوئے افسانے تو لکھے گئے مگر ناول بہت کم۔ ممتاز مفتی اور جوگندر پال نے اپنے آخری زمانے میں کچھ کہانیاں لکھیں۔ یہ کام محنت اور بہت توجہ چاہتا ہے۔ اصغر ندیم سید نے ناول دشتِ امکاں کا آغاز یوں تو کرداروں کے تعارف اور ان کی نفسیاتی کمزوریوں کو اشارتاً بتاتے ہوئے، ایک خاتون کے ذریعے، مردانہ ذہنی نا آسودگی کو بڑے محتاط طریقے پر کہیں داستان تو کہیں کہانی اور کہیں سفر نامے کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے قارئین کو مختلف ملکوں کے معاشروں اور کرداروں کو غیر جذباتی اندازمیں پیش کیا ہے۔
لوگ پوچھیں گے مقصد کیا ہے اور کیا کوئی ناول کرداروں کے اشاروں اور ان کے کھانوں کی تفاصیل سے مکمل ہوسکتا ہے؟ ناول میں فلسفیانہ گفتگو،روزمرہ کی بات چیت کے ساتھ انسانی رشتوں میں ذہنی آلودگی اور سادگی، دونوں کو کرداروں کے ذریعے بغیر کسی وضاحت کے،عورت اور مرد کے رشتے مغربی ممالک میں کس عمر سے شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ ہر چند بہت سی خواتین، ایک عمر پہ پہنچ کر ماں بننا جذباتی ضرورت سمجھتی ہیں۔ اس خواہش میں مرد کی ذمہ داری کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کو تعلیمی وظائف اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ بچے ماں کےتعلق سے پرورش پاتے ہوئے،باپ کہاں ہے؟ یہ سوال کم کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا وجود کب، کہاں اور کیوں، یہ سوال، جواب حاصل کرتے ہیں معاشرے میں موجو د روایتوں سے، ایک دوسرے سے تعلق اور تہذیب سے جس کی تعریف انسانی نفسیات اور تہذیب کو، تہہ بہ تہہ، خاموشی کے پردے میں سکھاتی ہے کہ بچے کی پیدائش، قدرتی نہیں، عورت اور مرد کی خواہش اور سنجیدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوتی ہے۔ مرد، چونکہ ذمہ داری سے گریز چاہتا ہے، عورت اس کے گریز کو سمجھتی ہے۔ یہیں مصنف، روایت کے برخلاف سمجھاتا ہے کہ صرف جنسیت، انسانی رشتوں کی اساس نہیں ہوتی۔
یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کو لائبریریوں سے رابطہ اور اپنے تھیسس پر توجہ سے نظر ہٹانے کے مواقع بہت کم میسر ہوتے ہیں مگر چھٹی کے دن خاندانی سطح پر رشتوں کی محبت اور آسودگی تلاش کرنے والے، زندگی کی حقیقتوں کو بہت مثبت طریقے پر سمجھتے ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے بچے، باپ کی ضرورت اور حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی زندگی میں خلا کو محسوس کرتے ہیں۔سمجھنے کیلئے، باپ کو تلاش کرتے کرتے اور اس کی موجودگی کو، زندگی کے کسی لمحے میں اگر سامنے پاتے ہیں تو ہمارے معاشرے کی طرح گلے شکوے نہیں، نفسیاتی تہوں کو سمجھنے کے لئے مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ سارے نوجوان نارمل رہتے ہیں اور لڑکیاں ذاتی رشتوں کو فراموش کرکے، زندگی میں جذباتیت کوپہنچتی ہیں تو بہت سے نا آسودہ تعلقات کو، اپنے کو لیگ ساتھیوں اور اکثر استادوں کے ساتھ کھل کر بات کرکے،ان جذباتی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
مارا مصنف ہر مرحلے کو بیان کرتے ہوئے واپس اپنی سرزمین اور اپنے لکھنے والوں کو تقابلی سطح پر تو کبھی یادوں کے جھروکوں سے دیکھتے ہوئے، ان کے ادبی قد اور تحریر میں یادیں لاتے ہوئے کبھی شعیب ہاشمی کو یاد کرتا ہے اور کبھی بھٹو صاحب کو اپنے سامنے بلا کر ڈائیلاگ کرتا ہے۔ لاہور کا ذکر ہو تو مجید شیخ کی لاہور پہ کتاب کو کپاڑی کہہ کر لاہوریوں کی خوش خوراکی کا مذاق اڑاتا ہے۔ کہیں کہیں کسی دوست کا نام لکھ دیتا ہے جیسے ونودجودہلی کی اور انڈیا کی تاریخ کا اور اشرافیہ کا تذکرہ لطف لیکر کرتا ہے۔ پرانے تذکروں میں ہمارے لکھاری اصغر ندیم سید کو مزا آنے لگا ہے، پندرہویں صدی میں لے جاتا ہےاور بیسیویں صدی تک گھومتا رہتا ہے۔ پورے ناول میں سفر کے مظاہر اور سب سے بڑھ کر یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کرتے ان نوجوانوں کا احوال جن کےلئے جنسیات ضرورت تو ہے مگر زندگی کا ماحصل نہیں۔
پاکستان میں کام کرنے والی خواتین اور مردوں میں سطحی رشتوں یا دوستی کی بات نہیں ہوتی۔ کام اپنی جگہ اور اس میں دوستیاں رشتوں میں بدلتی ہوئیں اپنی جگہ۔ مگر اختر وقار عظیم چونکہ بہت شریف باپ سید وقار عظیم کا بیٹا ہے۔ اس لئے درپردہ ذاتی تعلقات نہ کبھی اپنے بارے میں لکھتا ہے اور نہ کسی اور کے پردے کے پیچھے چھپے حالات کا چسکا لیتا ہے۔ اختر نے چونکہ کافی عرصہ تک اسپورٹس رپورٹنگ ٹیم کی سربراہی کی ہے اس لئے دوسرے ملکوں اور وہاں جانے والے کمنٹیٹرز کی دوستی اور کارکردگی کو بھی سلیقے سے بیان کیا ہے۔ اپنے بھائی اطہر کے بارے میں اتنی محبت سے لکھا کہ مجھے برادرانِ یوسف کا قصہ بے معنی لگا۔ تحریر میں ان کی بے ساختگی اور والہانہ پن ہے کہ لگتا ہے یہ سارے لوگ کہیں ملازم نہیں، بلکہ ایک خاندان تھے کچھ لوگوں کے بارے میں لکھنا مشکل لگا تو اختر نے ان سے دیباچہ لکھوا کر جان بخشی کروائی۔
یہ وہ زمانہ ہے جب ہمارے دوست ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ کیا اچھا لگا کہ یہ سارے مضامین ان کی زندگی ہی میں لکھے گئے۔ سوائے، مگر کیا کہوں کہ سوائے تو بہت آجاتے ہیں۔ پروین شاکر نے بہت جلدی کی، اطہر کی بیوی شیریں نے بھی جلدی کی، البتہ زندگی کی پوری بہاریں آغا ناصر اور اسلم اظہر نے دیکھیں اور ہم پیچھے رہ جانے والوں کے لئے بہت سے سبق۔ بجیا نے ٹی وی کو سجانا سکھایا اور حسینہ نے عورت کے بولنے کو اس پیرائے میں بیان کیا کہ آنے والی نسلیں، ہندوستان، پاکستان دونوں میں بولنے کا ہنراور مزاح کی تہذیب سیکھیں گی۔
اصغر ندیم سید کی یادوں کی ندی میں ابھی اور نئے چہرے آنے ہیں اور اختر وقار عظیم تو ماشاء اللہ باپ کی روح کو خوش کر رہے ہیں۔ سلامت رہیں میرے دوست!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ