پیارے شاکر خوش رہو
19نومبر کو میں ملتان گیا اور 20کو وہاں سے تمہیں خط لکھا۔ 20تاریخ کو ہی تمہارا خط لاہور پہنچا اور آج مجھے مل گیا۔گویایہ خط تین چار روز میرا انتظارکرتارہا۔ ۔ تم نے غفارپاشا کاپوچھا ،کافی عرصے سے اس کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔ کتاب چھاپنے کے معاملے میں ہمیں لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ دیکھ لو حسین سحر اسی مروت میں اب تک اپنامجموعہ شائع نہیں کراسکے کہ پہلے بزرگ اپنی کتابیں چھپوا لیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جس عہد کی ان کی شاعری تھی وہ عہد گزرگیا۔خیر اب بھی انہیں اپنی کتاب چھپوا لینی چاہیے۔ تمہارے لیے کچھ کتابیں بھابھی کے ہاتھ بھیج رہا تھا مگر ذاکر نے بتایا کہ سحر صاحب نے روک دیا کہ کتابوں سے کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔ تم تو جانتے ہو وہ کتنے وہمی ہیں ۔ پھربھی ذاکر نے سحر صاحب سے چوری کچھ کتابیں بھابھی کودے دیں۔ باقی چیزیں حاجی صاحب(شاکر کے سسر) لے آئیں گے۔ انہوں نے دس پندرہ روز بعد آنا ہے۔ اس مرتبہ میں ذاکر کو بشریٰ رحمان کی کتاب ”براہ راست“ اور تمہارا انشایئے والا امروز دے آیاتھا۔ تراشے میں نے ایک پیکٹ میں اچھی طرح لپیٹ دیئے تھے ۔احتیاط سے کھولنا۔ اسلام تبسم کوتمہارا خط مل گیا وہ جواب بھی لکھ رہا تھالگتا ہے تم نے بہت سے خط ایک ہی روز لکھ کر پوسٹ کیے ہیں۔ تم نے جس غزل کامطلع تبدیل کرنے کا کہا میں وہ غزل ہی مسترد کرچکا ہوں بلکہ اس کی کوئی کاپی بھی میرے پاس نہیں ہے۔ ایک دومصرعے یاد رہ گئے ہیں وہ بھی بھلا دوں گا۔ مجھے مطلع ہی تو اچھا لگتاتھا اگر وہ ہی متنازعہ ہوگیا توپھرغزل کیاکہنی۔ غزل اب صرف اس خط میں محفوظ ہے جو میں نے تمہیں لکھاتھا۔ سنبھال کررکھنا ممکن ہے وہ خط اورغزل کسی دور میں ”نوادرات “ میں شمارہو۔ جس طرح لوگ آج کل اقبال کے خطوط سے کمائی کررہے ہیں بلکہ خود ہی شکستہ خط لکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اقبال کاخط ہے۔تمہیں بھی ان خطوط سے بہت کچھ ملے گا۔ڈاک کا نظام خط جیسے بھی پہنچائے میں چار پانچ روز بعد تمہیں خط لکھ دیتا ہوں۔ اور یہ سب غیررسمی ہوتے ہیں ۔ ویسے ہماری بے تکلفی کے سامنے سبھی رسمیں دم توڑ جاتی ہیں۔ تمہارے طرف سےابھی جواب آنا ہے اور آج پانچواں خط جارہاہے۔ میرے حالات سنو، آج میں نے چارپائی خرید لی اور اس پر بستر لگا کر رضائی اوڑھ کر تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔نئی چارپائی پر بیٹھ کر یہ پہلا ”تخلیقی“کام کررہا ہوں۔ چارپائی تو لے لی اور لینی بھی تھی لیکن بجٹ کاستیا ناس ہوگیا۔ ابھی تنخواہ آنے میں بہت دن باقی ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں اور تمہیں میں نے یہ تو بتایا تھا کہ زمین پرسوتے ہوئے ایک روز ایک سانپ میرے سینے پر بیٹھ گیاتھا۔ یہ ساری تفصیل میں تمہیں لکھ چکا ہوں ۔لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں ہمارے سینے پر بیٹھتے ہیں اورآستینوں میں رہتے ہیں۔ملتان سے کل آیاہوں۔ اس مرتبہ سحر صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اطہر ناسک بھی نہیں ملا۔ امین صاحب ،مقصود زاہدی ،انور جمال، منور جمیل قریشی، قمررضا سے ملاقات ہوئی۔ 21نومبر کو میں اوربھٹی کبیروالا گئے۔ وہاں سے قمررضا اور حسنین اصغر کے ساتھ ساجد نجمی اور شفقت منیر کو ملنے کے لیے (KDL)کبیروالا ڈیری لمیٹڈگئے تھے۔ سب نے تمہیں یاد کیا کہ کیسے تم پچھلی بارہمارے ساتھ تھے۔ بیدل حیدری سے بھی ملاقات ہوئی۔ اظہر سلیم مجوکہ کے ہاں بیٹی پیداہوئی ہے۔ کل اس کاخط آیاتھا۔ کاروان بک سنٹر سے اس مرتبہ انتخاب رسالے کا حساب کرآیاہوں ۔انتخاب کے دس شماروں میں سے چھ فروخت ہوئے ،20روپے بنتے تھے میں نے دوروپے اوردے کر میکسم گورکی کا ناول ”ماں“ خرید لیا۔ تمہیں یاد ہوگا کہ مجھے اس ناول کاشدت سے انتظار تھا۔ خلاف معمول آج مختصر خط لکھ رہا ہوں۔ شدید نیندآرہی ہے۔ کل یا پرسوں تمہارا ایک اورخط آنے والا ہے۔ اس کے لیے بھی کچھ باتیں بچا کررکھوں گا۔ دن چھوٹے ہوگئے ہیں اورراتیں لمبی ( اور یہ راتیں تو ہمیشہ سے ہمارے لیے طویل ہیں ، موسم جیسا بھی ہو )
۔ احباب کوسلام کہنا ۔تمہارے لیے دعائیں
والسلام
تمہارارضی
24نومبر1985
(کل صبح پوسٹ کروں گا)