خواب دیکھنے کی نہیں ،حقیقت کو پرکھنے کی ضرورت ہے ،ایسے لگتا ہے قوم کی معروضی حالت سے کسی کو واسطہ تعلق نہیں ،فقط اقتدار کی کشمش ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ وہ جو خیالی جنت میں محل تعمیر کرتے جا رہے ہیں ،انہیں گھروندوں کی کوئی فکر نہیں ،جو تنکا تنکا ہو کر اڑتے جا رہے ہیں ، عنان اقتدار کسی آمر کے ہاتھ میں نہیں ، بے شک بندوق رکھنے والے اپنے کندھے استعمال نہیں کر رہے،ا س لئے دلی دور ہے ،مگر اتنی دور بھی نہیں کہ دسترس یا رسائی سے باہر ہو۔
مولانا کو بہت جلدی ہے ،مگر یہ دو ہزار دو نہیں ہے ،سترہ برس بیت گئے ،اب نہ تو کوئی مولانا کو وزیر اعظم کا امیدوار بنانے پر آمادہ اور نہ مولانا ایسا کوئی زادِراہ اپنے پاس رکھتے ہیں ،ان کی اے پی سی کے اعلامیئے کی روح کے چولے میں بھی کئی چاک تھے ،جن میں نہ پیوند لگائے جا سکے نہ ہی مستقبل قریب میں یہ چاک سیئے جانے کا کوئی امکان ہے،حضرت والا کا سارا زور اسمبلیوں کی ممبر شپ سے استعفے دینے پر ہوتا ہے اور اپنے ممبران کو پہلا پتھر بنانے کا کبھی عندیہ نہیں دیا،بس یہی فرق ہے حقیقت اور مجاز میں َ۔ بہر حال سیاسی خوش فہمیوں کا ایک دن گزر گیا ،مولانا اپنے بیانیئے پر قائم،پی پی پی اپنے پہلے دن کے موقف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹنے کی،ن لیگ ڈانواں ڈول،سمجھ سے بالاتر ہے کہ مولانا جیسے جہاندیدہ سیاستدان اپنی ضد پر اڑے ہوئے کیوں ہیں ؟ اور مذہب کو ڈھال بنانے کی روش کیوں اپنانے پر مجبورہیں؟ فکری اعتبار سے وہ ہمیشہ روشن خیال گردانے جاتے رہے ہیں ،ان کی پرورش صاف ستھرے سیاسی ماحول میں ہوئی ،تدبر ان کو ورثے میں ملا ۔ اب کی بار ان کا منتخب نہ ہونا ان کے لئے وبال جان بن گیا ہے بلکہ وہ اسے پوری قوم کے لئے ایک المناک سانحہ گردانتے ہیں ،وہ اس دکھ سے نکل ہی نہیں پارہے،بھری محفل میں ان کا یہ کہنا کہ گستاخ صحابہؓ کے ایشو پر حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے ،ناقابل یقین ہے ،وزیر اعظم کی تقریر کے حوالے سے ایک ایسا ایشو جس میں بے پناہ التباس پایا جاتا ہے اور بعض مذہبی سکالر بھی اس امر کو گستاخی تصور نہیں کرتے،اسے ڈھال بنا کر سیاسی انتقام کی ایسی آگ بھڑکانا کہ جس سے ریاستی ڈھانچہ عدم استحکام کا شکار ہوکر رہ جائے مطلق محلِ نظر ہے۔
اس حوالے سے بلاول زرداری کا موقف قابل ستائش ہے جو موجود جمہوری نظام کو کسی طور خطرے سے دوچار کرنا نہیں چاہتے،مولانا کا آمریت کے حق میں جھکاﺅ کسی خوفناک کھیل کی پیش بندی کا شاخسانہ ہے،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی اس کھیل کا حصہ بننے کے آرزو مند دکھائی دیتے ہیں ،جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی بری صورت حال میں پی پی پی کو تن تنہا جمہوریت کی جنگ لڑنا ہوگی اور یہ پہلی بار نہیں ہوگا کہ قربانیاں پی پی پی کے کارکن دیں گے اور اقتدار کا مزہ چھوٹی پارٹیوں سے ملکر ن لیگ اڑائے گی۔
حالات کی سمت درست رکھنے کے لئے بلاول زرداری پر عزم رہتے ہوئے اسمبلی ہی میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں کسی ایسے کھیل سے دور ہی رہیں جو ناعاقبت اندیش سیاستدان کھیلنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں ،اس کے لئے پی پی پی عوامی مہم کا آغاز ضروری ہے ،جب تک عوام میں رابطہ مضبوط نہیں ہوگا جمہوری جدوجہد بار آور نہیں ہوگی، یونین سطح سے پارٹی کو انتخابات کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ہے ،حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی ہو کہ پی ٹی آئی دونوں مقامی سطح ہو یا صوبائی سطح پارٹی کی تنظیمی صورت حال سے مکمل طور پر لاتعلق ہیں ،اسی لاتعلقی نے کارکنوں کے اندر مایوسی اور بیگانگی پیدا کر دی ہے،بلاول اپنے گرم لہو سے کارکنوں کے لہو کو بھی گرما سکتے ہیں ،انہیں ہوہکار کی روش سے یک سر دور رہتے ہوئے پارٹی پر دھیان دینا چاہئے،خاص طور پر نظریاتی کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،وہی پاکستان پیپلز پارٹی کا اصل اثاثہ ہیں ۔ پی ٹی آئی کسی نظریئے پر قائم نہیں ہوئی بلکہ مزاحمتی سیاست کی پیداوار ہے جس نے حالات سے تنگ آئے ہوئے تمام
سیاسی کارکنوں کو ایک امید کے نعرے پر یکجا کیا کہ انصاف کا بول بالا ہوگا غریب امیر کو انکی دہلیز پر سستا انصاف ملے گا، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی قومی خزانہ اور وسائل کی پاسداری کی جائے گی ،مگر دس ماہ کے عرصہ میں وہ اپنے ایک بھی وعدے پر پوری نہ اتر سکی ،ملک میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کے آگے بند تو کیا باندھتی اس نے عام آدمی کی زندگی دو بھر کر دی ،سفید پوشوں کا بھرم کھول دیا اور تو اور رشوت اور بد عنوانی کے نئے راستے کھول دیئے،بےدرد اور خود غرض وزیروں اور مشیروں کو قوم پر مسلط کر دیا ،اداروں کی ساکھ بد سے بد ترین ہوچکی ہے ۔ کیا وزیر اعظم عمران خان کی آنکھیں کھولنے کے لیئے اتنا کافی نہیں کہ عام آدمی ابھی بھی ان سے بہتری کی توقع رکھتا ہے اور ان کے خلاف منعقد ہونے والی اے پی سی بھی پانی میں مدھانی ثابت ہوئی ہے۔