نصف صدی پہلے وہ پنجاب کے ایک پیش پا افتادہ شہر جھنگ سے نکلا تھا ،درس نظامی مکمل کرکے اس نے اپنے والد کی دیرینہ خواہش پوری کر دی تھی ،اب اپنے خوابوں کی جوت جگائے ،یہ نگر نگر کی ریت چھاننے لگا،پھر ایک روز قسمت اچانک سے اس پر مہربان ہو گئی،لاہور شہر کے لوہے کے تاجر میاں محمد شریف نے اسے جائے پناہ دے دی،اس نے معمولی پڑھے لکھے تاجرکو اپنی قابلیت کا گرویدہ بنا لیا ِ،وہ اسے ماڈل ٹاﺅن میں اپنی نو تعمیر شدہ مسجد میں پیش امام کے طور پر لے
آئے ۔
زبان و بیان پر کچھ بہتر دسترس رکھنے کے باعث یہ ناں صرف بوڑھے مخیر تاجر بلکہ ان کے پورے خاندان کی آنکھوں کا تارہ بن گیا ،دنیا کی کونسی آسائش تھی جو اس متمول خاندان نے اسے مہیا نہ کی،یہاں تک کہ منہاج القرآن کے نام سے ایک معتبر ادارہ اسے بنا کر دیا،دولت کی ریل پیل ،عزت واحترام ،تزک و احتشام سب سے اس کا دامن بھر دیا ،آمر ضیا ءنے تاجر کے بیٹے کو پنجاب کا بینہ میں وزارت بخشی تو ٹی وی پر اس کا مستقل پروگرام رکھ دیا ،یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہرت کے آسمان کا تابندہ ستارہ بن گیا۔
اس میں شک نہیں کہ اللہ نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا،مطالعہ کے شغف نے اس کی صلاحیتوں کو اورمہمیز لگائی،ایک خاص مسلک کا پیروکار ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے مسلک کے ڈھیروں افراد اپنے گرد جمع کر لئے، اب اس نے اپنی شہرت اور حلقہ میں پسندیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک روحانی پیشوا کا سوانگ رچالیا،کرامات کی پٹاری سے روز ایک شعبدہ گھڑ کر سادہ لوح لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتا ،لوگوں کو اپنی شخصیت کے نت نئے رنگوں
سے آشنا کرتا،جہاز پر حجاز کا سفر کرتا تو ایک کی بجائے دو ٹکٹ لے کریہ باور کراتا کہ ” نبی ﷺ کی رفاقت میں سفر کرتا ہو ں اور دوسرا ٹکٹ آ پ ﷺ کے ایما پر خریدتا ہوں “اس نوع کے متعدد غیر مرئی واقعات اس نے اپن ذات سے جوڑ لئے اور کچھ مقدس خوابوں کی پوٹلیا ں ہمیشہ اپنی زنبیل میں رکھتا،کمزور عقائد کے لوگ جوق در جوق اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے،یہ اس کے مقدر کی یاوری کا سنہری دور تھا،جس نے اس کے اندر تکبر کی رمق پیدا کر دی ،اسی استکبار نے
ایک روز اسے اپنے محسنوں کے روبرو سیسہ پالائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا کر دیا۔
اسے معلوم نہیں تھا عدالتیں پل بھر میں اس کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیں گی۔ شریف خاندان کو خاک چٹوانے کے زعم میں یہ خود ہی خاک چاٹنے پر مجبور ہوا ،مگر مذہبی انتہا پسند حلقوں میں اس نے اپنا جو قد کاٹھ بنا رکھا تھا اس پر آنچ کم ہی آئی،ادارہ منہاج القرآن وقت کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا رہا ،جس نے اس کی شخصیت کو ایک نیا اعتبار بخشا،اب اس نے اپنے کام کی جہت تبدیل کی ،دیار نبیﷺ سے بشارت کی روشنی میں خوابوں کی نئی تعبیروں کے حصول کے لئے عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی ،یہ اس کا ایک نیا روپ تھا ،داعیءانقلاب کا روپ ،اس کے ساتھ ہی پیشین گوئیوں کا بھی ایک نیاسلسلہ شروع کیا،اپنے ہر طرز عمل کو نبی ﷺ کی ذات کی عطا کہہ کر پکارتا ،مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب ملمع سازیاں تھیں۔
انیس سو نوے کے انتخابات میں شکست کی ہزیمت نے اسے سیاست سے دست کش ہونے پر مجبور کر دیا ،اب اس نے تعلیمی میدان میں قسمت آزمائی کی ٹھانی اور پھر سے کچھ کامرانیاں اس کے دامن میں بھر گئیں ،مگر حصول اقتدار کی منہ زور خواہش ایک بار پھر اسے دشت سیاست میں لے آئی،آمر پرویز مشرف نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا اور یہ خوش فہمی کا شکار ہوگیا کہ ایوان اقتدار میں اس کی ضرورت حرف آخر ٹھہری ،کسی بھی لمحہءسعید میں خلعت شاہی اس پر سجا دی جائے گی ، قومی اسمبلی کی رکنیت کا چغہ اس کے تن پر کیا سجا کہ خوابوں کی لمبی رت ہی نے اسے اپنے حصار میں لے لیا مگر یہ کہ تمام خواب تو تعبیر بھی نہیں رکھتے۔
برا کیا ہے جو کسی نے یہ خواہش کی
طاہرالقادری ایک بار پھر نوشتہءقدرت کی دیوار میں اپنے خوابوں سمیت چن دیئے گئے،تا ہم انہیں دکھ سہنے کی عادت سی ہوگئی تھی ،سیاست کی بساط کا مہرہ بن کر چالیں چلنے اور مرنے مروانے کے شوق نے انہیں ایک نئی راہ سجھائی ،اپنے تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات اور مردو زن اساتذہ کو لے کر اسلام آبا پہنچے اور سر ما کی برف راتوں میں ٹھٹھرتی ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے ننھے دودھ پیتے بچوں کے ساتھ کئی راتیں شہر اقتدار کی سڑکوں پر گزاریں ،ایک شخص کے اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے لئے،مگر اقتدار کا کوئی در اس کے لئے وا نہ ہوا ،اور وہ ایک بار پھر سیاست سے دست برداری کا اعلان کرکے اپنی آرزوﺅں کا لاشہ اٹھائے ویٹیکن سٹی جا پدھارے۔پیچھے مڑ کر ہی نہ دیکھا ،کتنے گھروں کے چراغ گل ہوئے۔کتنے نوجوان ان کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ کر اپاہج و معذور ہوئے،ماڈل ٹاﺅن میں شریف خاندان سے ٹکراﺅ کے نتیجے میں کتنی لاشیں گریں ،جن کا سراغ عمران حکومت لگا سکی ہے نہ کسی عدالت نے سوموٹو لیتے ہوئے کسی اجڑے ہوئے خاندان کو انصاف مہیا کیا۔
آج ایک بار پھر علامہ طاہر القادری نے سیاست سے ریٹائر منٹ کا اعلان کیا ہے ،مگر ہم کیسے مان لیں کہ صبح کا بھولاشام کو گھر نہیں آئے گا۔ گو علامہ صاحب نے اپنے سارے پتے ایک ایک کرکے گنوا دیئے ہیں مگر ہمیں امید ہے وہ ایک بار پھر سیاست کی بساط گھوڑا بننے کے لئے خود کو تیار کر لیں گے ،بھلے وہ کسی آمر کی بچھائی ہوئی بساط ہی کیوں نہ ہو۔۔۔!